کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 451
’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیا اس نے مہاجرین و انصار پر عیب لگایا۔‘‘ اہل سنت کے سب ائمہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے ہیں ۔ جمہور محدثین کا نظریہ یہی ہے۔ نص اجماع اور قیاس بھی اس کی تائید کرتے ہیں ۔ بعض متقدمین سے جو منقول ہے کہ وہ حضرت جعفر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کو افضل قرار دیتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر لحاظ سے افضل تھے؛ بلکہ بعض خصوصیات کے اعتبار سے ان کو جزوی فضیلت حاصل تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دینے کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ بعض خصوصیات کی بنا پر جزوی فضیلت کے حامل تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جاہل اور ظالم کی رافضی تقسیم : [اعتراض]: ....شیعہ مصنف کا کہنا ہے کہ: ’’ بعض صحابہ پر حق مشتبہ رہا اور طلب دنیا کے نقطہ خیال سے بیعت کر لی تھی ۔‘‘ ۲۔ بعض اہل سنت شبہات کا شکار ہو کر دنیا دار لوگوں کے پیچھے چلنے لگے تھے۔ کوتاہ بینی کی بنا پر انہیں حق تک رسائی حاصل نہ ہو سکی، اور گرفت الٰہی کے مستوجب ٹھہرے۔اس لیے کہ انہوں نے غور وفکر نہ کرکے یہ حق غیر مستحق کے سپرد کردیا تھا۔ ۳۔ بعض لوگ کوتاہ فہمی کی بنا پر مقلد محض ہوکر رہ گئے اور لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر یہ سمجھے کہ شاید کثرت افراد حق و صداقت کی علامت ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انہی کی بیعت کر بیٹھے اور اس آیت کو یکسر نظر انداز کر دیا:﴿ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ ﴾ (ص۲۴) ’’وہ (حق پرست) کم ہی ہوتے ہیں ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ [سبا ۱۳] ’’’ اور میرے بندوں میں سے بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہیں ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی] [جواب]:.... ان سے کہا جائے گا: اس مفتری وکذاب نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تین گروہوں میں منقسم کیا ہے: ۱۔ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا کے طلب گار تھے۔ ۲۔ ایک گروہ کے لوگ کوتاہ بین تھے اور دور اندیشی سے محروم تھے۔ ۳۔ صحابہ کی تیسری قسم عاجز اور بے بس تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے تین گروہوں میں تقسیم ہونے کی وجہ و محرکات و اسباب بقول شیعہ مصنف مندرجہ ذیل تھے: