کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 450
گفتگو میں علم عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ وہ جہالت زدہ اور اہل اہواء میں سے نہیں ۔وہ روافض و نواصب دونوں سے بیزار ہیں ۔ ان کے افکار و معتقدات کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱۔اہل سنت سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں ۔
۲۔اہل سنت صحابہ رضی اللہ عنہم کے مناقب و فضائل کے قدردان ہیں ۔
۳۔اہل سنت اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ان جائز حقوق کی نگہداشت کرتے ہیں جواللہ تعالیٰ نے بیان کیے ہیں ۔
۴۔اہل سنت مختار ثقفی جیسے کذاب اور حجاج جیسے ظالم و سفاک کے رویہ کو پسند نہیں کرتے۔
۵۔اس کے ساتھ ہی سابقین اولین کے مراتب کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما افضل الصحابہ ہیں ۔حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما یا کوئی اور صحابی اس فضیلت میں ان کا حصہ دار و شریک نہیں ہوسکتا۔
قرن اول میں یہ عقائد و افکار متفق علیہ تھے۔ شاذو نادر کسی کو اختلاف ہو تو اور بات ہے۔ اس کی حدیہ ہے کہ قرن اول کے شیعہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رفقاء و احباب حضرت صدیق اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی عظمت و فضیلت میں کسی شک و شبہ میں مبتلا نہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر ثابت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:
(( خَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ )) [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر و عمر اس امت میں سب سے افضل ہیں ۔‘‘
تاہم شیعان علی میں سے ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتی تھی۔ مگر یہ اتنا اہم مسئلہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہل سنت حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت میں یک زبان تھے۔ امام ابو حنیفہ، شافعی، مالک، احمد بن حنبل، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد رحمہم اللہ اور دیگر متقدمین و متاخرین محدثین، مفسرین، اہل فقہ و اہل زہد سب یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ البتہ حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی افضلیت میں اہل مدینہ کی ایک جماعت توقف کرتی تھی۔ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔ اہل کوفہ کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتی تھی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے۔ بعد ازاں حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے ملنے کے بعد اس مسلک سے رجوع کر لیا تھا حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ بعد ازاں فرمایا کرتے تھے:
[1] سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ(ح: ۱۰۶) ، مسند احمد (۱؍۱۰۶)۔البخاری فِی صحِیحِہ۵؍۱۱۲۔أبو داود فِی سننِہِ۴؍۲۸۸۔ِکتاب السنۃِ، باب فِی التفضِیلِ۔ وفِی سنن ابن ماجہ۱؍۳۹۔ وذکر السیوطِی فِی الجامِعِ الصغِیرِ ۲؍۱۰ ؛ ط۔ مصطفی الحلبِیِ، وذکر إن ابن عساِکر روی الحدِیث عن علِی والزبیرِ معًا، وحسن السیوطِی الحدِیث، ولِکن الألبانِی ضعفہ، فِی ضعِیفِ الجامِعِ الصغِیرِ وزِیادتِہِ۳؍۱۳۷۔