کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 45
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾
[آل عمران۱۰۰]
’’تم بہترین جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کیلئے ظاہر کیا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ ضلالت پر جمع نہ ہوں گے اور صرف ایسی چیز کو واجب یا حرام قرار دیں گے جس کے وجوب و حرمت کا فتویٰ اﷲ و رسول نے صادر کیا ہو، یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بحیثیت مجموعی حق گوئی سے سکوت اختیار کریں جب کہ وہ شرعاً امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مکلف و مامور ہیں ، یہ صریح نص قرآنی کے خلاف ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اور دیگر لا تعداد براہین و دلائل کی بنا پر مسلمان دین اسلام کو ایک اجتماعی دین قرار دیتے چلے آئے ہیں اور اسی بنا پر ان کو ’’ اہل السنۃ والجماعۃ ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے بایں ہمہ شیعہ اجماع امت کو تسلیم نہیں کرتے، امت مسلمہ ان کی نگاہ میں ایک منتشر جماعت ہے جس میں کوئی شیرازہ بندی نہیں ، اور اس کے قیام و بگاڑ کے لیے نبی کے سوا کسی غیر معصوم امام کا وجود از بس ناگزیر ہے۔
شیعہ کا قبلہ و کعبہ:
ہمارے اور شیعہ کے مابین آخری نقطہ فرق و اختلاف یہ ہے کہ مسلمان جب عبادت بجا لانے کے لیے بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوتے یا دعا کرتے وقت اس کے حضور عجز و نیاز کرتے ہیں تو صرف ایک ہی کعبہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ، مگر شیعہ خانہ کعبہ کے ساتھ دوسرے کعبہ جات کو بھی شریک کرتے ہیں ۔شیعہ کا ایک کعبہ مغیرہ بن شعبہ کی قبر ہے جو نجف کے مقام میں واقع ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں شہادت پائی اور وہیں مسجد کوفہ اور قصر کے مابین مدفون ہوئے۔
عرصہ دراز کے بعد شیعہ نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بمقام نجف مغیرہ کی قبر میں مدفون ہیں ۔ شیعہ نے اس قبر کو کعبہ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ اسکا اصلی اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جو وہاں جاکر بہ چشم خود شیعہ کی حرکات کا ملاحظہ کرے، شیعہ کا دوسرا کعبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی من گھڑت قبر ہے، جو بقول شیعہ کربلا میں واقع ہے۔ملاحظہ کریں ایک شیعہ شاعر وہ کہتا ہے: ؎
ہِی الطفواف فطف سبعا بمعناھا فمالمکۃ معنی مثل معانھا
ارض ولکنما السبع الشدادلھا دانت وطاطا اعلاھا لادناھا
’’یہ ارض کربلا ہے یہاں سات مرتبہ طواف کیجئے
جو مقام اسے حاصل ہے وہ مکہ کو کہاں نصیب!