کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 449
’’قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک سفاک (ناحق خون بہانے والا) ہوگا۔‘‘ [1]
آپ کے ارشاد گرامی کے مطابق ثقیف کا کذاب مختار بن ابی عبید تھا اور سفاک حجاج بن یوسف ثقفی۔
روافض نواصب کی نسبت بدتر ہیں :
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ عمر بن سعد جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والی فوج کا سپہ سالار تھا۔ ظالم اور طالب دنیا ہونے کے با وصف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حامی اور ان کے قاتلوں کے قاتل مختار بن ابی عبید سے زیادہ گناہ گار نہ تھاجس کا کہنا تھا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قصاص کا طالب ہے۔ اور اس نے قاتلین حسین کو قتل کیا۔ بلکہ عمر بن سعد کے مقابلہ میں مختار گناہ گار اور کاذب تر تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ مختار، عمر بن سعد ناصبی سے بدتر تھا۔ اسی طرح حجاج بن یوسف بھی مقابلۃًمختار سے بہتر تھا۔ حجاج کا جرم یہ تھا کہ وہ ناحق خونریزی کا ارتکاب کیا کرتا تھا۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س کے بارے میں خبردی تھی کہ وہ ناحق خون بہانے والاہوگا۔ اس کے مقابلہ میں مختار وحی کا دعویدار تھا اور کہا کرتا تھا کہ مجھ پر جبریل امین نازل ہوتا ہے[2] ظاہر ہے کہ نزول وحی کا دعویٰ قتل نفوس سے عظیم تر ہے۔ یہ کفر ہے اور اگر مختار اس سے تائب نہیں ہوا تھا، تو وہ یقیناً مرتد تھا۔ فتنہ پردازی یوں بھی قتل سے عظیم تر جرم ہے۔
یہ سلسلہ یہاں ہی ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ایک وسیع باب ہے جائز یا ناجائز شیعہ جس کی بھی مذمت کرتے ہیں ان میں اس سے بھی بدتر آدمی موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح شیعہ جس کی مدح و ثنا کرتے ہیں ان کے حریف خوارج میں اس سے بہتر آدمی پائے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ روافض اپنے حریف نواصب سے بدتر ہوتے ہیں ۔نیز یہ کہ شیعہ جن کو کافر و فاسق قرار دیتے ہیں ، وہ ان لوگوں کی نسبت افضل ہیں جو نواصب کے نزدیک کافر و فاسق ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت کے عقائد کا خلاصہ:
اہل سنت کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ جملہ اہل ایمان سے الفت و محبت کا سلوک کرتے ہیں اور
[1] صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب ذکر کذاب ثقیف و مبیرھا (حدیث: ۲۵۴۵)۔
[2] ۔مختار بن ابو عبید بن مسعود ثقفی ؛ ابو اسحاق ؛ ایک شیعہ داعی تھا۔ جو لوگوں کو حضرت محمد بن علی المعروف بہ محمد بن حنفیہ کی بیعت کی دعوت دیتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن علی کو اپنے بعد خلیفہ بنایا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے ساتھ تھی۔ پھر اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اکثر قاتلوں کو قتل کردیا۔ اور بنو امیہ کے لشکروں سے جنگ لڑی۔ اور عبیداللہ بن زیاد کو قتل کردیا۔ کوفہ ؛ الجزیرہ اوردیگر علاقوں میں اس کی بیعت کی گئی۔ پھر اس کے بعد اس نے نبوت کا دعوی کردیا۔ اور کہا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کی لڑائی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہماسے ہوئی؛ اور یوں سن ۶۷ھ میں قتل ہوگیا۔ مختار کا تعلق شیعہ کے فرقہ کیسانیہ سے تھا۔ شہرستانی اور دیگر مؤرخین نے اس فرقہ کو مختاریہ کا نام بھی دیا ہے۔ [تاریخ طبری ۵؍ ۵۶۹ ؛ أخبار الطوال للدینوری ۳۰۸۔ مروج الذہب للمسعودی ۳؍ ۵ـ۱۔الملل النحل ۱؍ ۱۳۲۔]