کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 448
یہ واقعات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت مظلوم تر تھے اور آپ کا صبر و حلم بھی مقابلۃً اتم و اکمل تھا۔ تاہم دونوں کا مظلوم اور شہید ہونا کسی شبہ سے بالا تر ہے، اگر کوئی شخص یوں کہے کہ حضرت علی و حسین رضی اللہ عنہما حکومت و امارت کے اسی طرح ناحق کے طلب گار تھے جیسے اسماعیلیہ میں سے الحاکم وغیرہ اور دیگر سلاطین بنی عبید۔[1] تو ایسا شخص بلا شک و شبہ دروغ گو اور مفتری ہوگا، اس لئے کہ حضرت علی و حسین رضی اللہ عنہماہمارے نزدیک اعلیٰ درجہ کے مومن تھے۔ان کی دینداری اور فضیلت مسلمہ ہے۔
جب کہ اسماعیلیہ ان کے مقابلہ میں منافق اور ملحد تھے۔ اسماعیلیہ وغیرہ کافر اورملحد ہیں ۔
علی ہذا القیاس جو لوگ حضرت علی و حسین رضی اللہ عنہما کو ان جھوٹے طلب گاران خلافت کی مثل قرار دیتے ہیں جو بنی طالب میں پیدا ہوئے یا وقتاً فوقتاً سر زمین حجاز اور دیگر بلاد و امصار میں سر اٹھا کرنا حق لوگوں کی جانیں تلف کرتے اور مال چھینتے رہے، تو کیا ایسے لوگ ظالم و کاذب نہ ہوں گے؟ یقیناً وہ جھوٹے ہوں گے۔
نظر بریں جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو عمر بن سعد کا مماثل قرار دیتا ہے، اس کا ظلم و کذب سابق الذکر سے بڑھ چڑھ کر ہے۔پھر عمر بن سعد اگر چہ نیکی کے تصور سے کوسوں دور تھا، تاہم اس کے جرم کی انتہاء یہ تھی کہ وہ گناہ کے ساتھ دنیا کا طلب گار تھا؛اور اسے اپنے اس عظیم گناہ کا اعتراف تھا۔اس طرح کے بہت سے گناہ مسلمانوں میں واقعہ ہوتے رہتے ہیں ۔
ملحدین کی ریشہ دوانیوں کا سبب رافضی حماقتیں :
بہت سارے شیعہ اپنی گندی کاروائیوں کے متعلق اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے ان کا مقصد ملک حاصل کرنا ‘ دین میں خرابی پیدا کرنا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت[ودشمنی] اور سرکشی کرنا تھا۔ جیسا کہ بہت سارے باطنیہ اور دیگر شیعہ گروہوں کی تحریروں اور خطابات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا یہ اعتراف رہا ہے کہ وہ حقیقت میں اسلام پر یقین نہیں رکھتے۔بلکہ وہ اپنے آپ کو شیعہ اس لیے ظاہر کرتے ہیں کہ شیعہ کی عقل بہت کم اور ان جہالت بہت زیادہ ہوتی ہے ؛لہٰذا ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقصود تک پہنچنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ان کا سب سے پہلا فرد ‘ بلکہ ان کا سب سے بہترین مختار بن عبید ثقفی تھا؛ جو کہ شیعہ کا امیر تھا؛اس نے عبید اللہ بن زیاد کو قتل کیا ۔ اس نے قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے انتقام کا نعرہ لگایا۔ اس ذریعہ سے اس نے محمدبن الحنفیہ اور دیگر اہل بیت کی قربت حاصل کرنے کی کو شش کی۔پھر اس نے نبوت کا دعوی کردیا۔اس کا دعویٰ تھا کہ جبریل میرے پاس وحی لے کر آتا ہے۔ صحیح مسلم میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
[1] بنی عبید کے مذہب اور ان کی تاریخ نشو و ارتقاء کے لیے دیکھئے ہمارا مقالہ مجلہ الازہر (م ۲۵ ؍ ۵ جمادی الاول ۳۷۳اھ : ۶۱۲، ۶۳۱) مقالہ کا عنوان ہے: ’’ مَنْ ہُمُ الْعُبَیْدِیُّوْنَ‘‘