کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 447
بلکہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ ان سے بلند تر تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ محمد بن ابی بکرنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایذاء پہنچائی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تربیت یافتہ ہونے کی بنا پر وہ آپ کے خاص اعوان و انصار میں شمار ہوتا تھا۔[1] مگر شیعہ محمد کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے اور لعنت تک بھیجنے سے نہیں شرماتے۔ [2]
اگر نواصب عمر بن سعد کے ساتھ یہی سلوک کریں یعنی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی بنا پر اس کی مدح و ستائش کریں اس لیے کہ وہ حامیان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے تھا اور ان کا قصاص لینا چاہتا تھا۔ اس کی دوش بدوش وہ عمر بن سعد کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اس لیے برا بھلا کہیں کہ وہ عملی طور پر قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنے والوں یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے ساتھ شریک جنگ نہ ہو ئے، تو ان کے اس فعل اور شیعہ کے فعل میں کچھ فرق نہ ہوگا؛ بلکہ شیعہ کا فعل نواصب کے فعل سے شنیع تر ہوگا۔اور رافضی ان سب سے بڑھ کر برے ہونگے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بلند تر تھا۔ اس کے پہلو بہ پہلو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی قتل کیے جانے کا کم استحقاق رکھتے تھے۔ تاہم دونوں کے مظلوم اور شہید ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی بنا پر امت اسلامیہ جس فتنہ سے دوچار ہوئی وہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت عظیم تر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سابقین اولین صحابہ میں سے تھے، آپ خلیفہ مظلوم تھے، بلا وجہ آپ سے معزول ہونے کے لیے کہا گیا تھا، جس کے لئے آپ تیار نہ تھے، آپ نے مدافعت کے لیے جنگ بھی نہ کی اور شہادت سے مشرف ہوئے۔[3]
حضرت حسین رضی اللہ عنہ امیر و خلیفہ نہ تھے، البتہ خلافت کے طلب گار تھے۔ جب یہ بات مشکل نظر آئی اور آپ سے کہا گیا کہ آپ ایک قیدی کی حیثیت میں یزید کے روبرو پیش ہوں گے تو آپ نے یہ گوارا نہ کیا اور دشمن کے خلاف صف آرا ہوئے، یہاں تک کہ بحالت مظلومی شہادت سے بہرہ ور ہوئے۔[4]
[1] سیدنا علی نے صدیق اعظم کی وفات کے بعد ان کی بیوی کے ساتھ نکاح کر لیا تھا، محمد بن ابی بکر اسی بیوی کے بطن سے آپ کا لے پالک تھا۔
[2] ہم قبل ازیں شیعہ کی معتبر کتب کے حوالہ سے تحریر کر چکے ہیں کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’الجبت‘‘ (جادوگر، شیطان) اورحضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو ’’ الطاغوت ‘‘ (باغی، سرکش) کے القاب سے نوازتے ہیں ، جب تاریخ انسانیت میں عدل و انصاف کے ایک مثالی کردار فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو.... جن کی بدولت اسلام کا نام روشن ہوا تھا.... طاغوت کہا جاتا ہے تو باقی لوگوں کی کیا حالت ہوگی، دراصل یہ لوگ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی توہین کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس اسلام کی مذمت بیان کرتے ہیں ، جوان دونوں حضرات کے طفیل اکناف ارضی میں پھیلا، یہی وجہ ہے کہ شیعہ نے ایک ایسا دین گھڑ لیا ہے جس سے ابوبکر و عمر عثمان و علی ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور ان کے خلاف آشنا ہی نہ تھے۔ دیکھئے کتاب ’’مختصر التحفۃ الاثنا عشریۃ ۔‘‘
[3] شہادت عثمان کے لیے دیکھئے، (کتاب العواصم من القواصم مع التعلیقات: ۵۲ تا ۱۴۷)
[4] ہادت حسین کے لیے دیکھئے مقالہ محب الدین الخطیب جس کا عنوان ہے: ’’ مَنْ ہُمْ قَتَلَۃُ الْحُسَیْنِ ‘‘ (سیدنا حسین کے قاتل کون تھے؟ ) مجلہ الفتح شمارہ: ۸۵۱، محرم ۱۳۶۷ھ