کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 446
اور جاہل ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ عیسائی لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہیں ۔ اور رافضی سب سے زیادہ خبیث النفس لوگ ہیں جیسے یہودی لوگوں میں سب سے بڑھ کر خبیث النفس ہوتے ہیں ۔ ان میں عیسائیوں کی گمراہی اور یہودیوں کی خباثت پائی جاتی ہے۔ [رافضی کا بیان کردہ عمر بن سعد کا قصہ ایک بد ترین قیاس ] پانچویں وجہ : جہاں تک عمر بن سعد کی پیش کردہ مثال کا تعلق ہے جوکہ حرام مال ومرتبہ کا طلبگار تھا؛[ عبیداﷲ بن زیاد نے اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے یا اپنے منصب سے الگ ہو جانے کا اختیار دیا تھا] یہ قیاس کی بد ترین قسم ہے۔[ اس لیے کہ عمر بن سعد جاہ طلبی اور محرمات کا مرتکب ہونے میں مشہور و معروف تھا]یہ مثال پیش کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ (نعوذ باﷲ من ذالک) سابقین الاولین صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اسی کی مانند تھے۔ عمر بن سعد کے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بہت بڑے فاتح تھے تاہم امارت و ریاست سے آپ کو کوئی دلچسپی نہ تھی، جب مسلمانوں میں فتنہ پردازی کا آغاز ہوا تو آپ اپنے محل میں گوشہ نشین ہوگئے جو عقیق نامی جگہ میں واقع تھا۔آپ کا بیٹا عمر بن سعد خدمت میں حاضر ہو؛ آپ کو ملامت کرنے لگا ‘ اور کہنے لگا: ’’ لوگ سلطنت و حکومت کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں اور آپ یہاں بیٹھے ہیں ۔‘‘ آپ بولے: ’’ اپنی راہ لیجئے! میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: (( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْخَفِیَّ الْغَنِیَّ )) [1] ’’اﷲ تعالیٰ متقی گمنام اور بے نیاز آدمی کو پسند کرتے ہیں ۔‘‘ اہل شوری میں سے صرف حضرت علی اور سعد رضی اللہ عنہما باقی رہ گئے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سر زمین عراق کو زیر نگیں کر کے کسریٰ کے لشکر کو نیچا دکھایا تھا۔ آپ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے، اور سب سے آخر میں فوت ہوئے۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے عمر بن سعد کا مشابہ قرار نہیں دے سکتے توحضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اس کی مثل کیوں کر ہوئے؟ مقام حیرت ہے کہ شیعہ کے نزدیک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کے ہم پلہ نہ تھے۔
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب الدنیا سجن للمؤمن۔ (حدیث:۲۹۶۵)۔ ایک روایت میں جسے ان کے بھائی عامر بن سعد نے روایت کیا ہے؛ فرماتے ہیں : ان کا بھائی یعنی عمر بن سعد ؛حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا؛آپ اس وقت مدینہ سے باہر تھے۔ جب اسے دور سے آتے دیکھا تو حضرت سعد نے فرمایا:’’ میں اس سوار کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ پھر جب وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو عرض کی: ابا جی ! کیا آپ کو یہ بات پسند ہے کہ آپ اعرابی بن کر اپنی بکریوں میں یہاں بیٹھے رہیں ۔ اور لوگ مدینہ میں حکومت کی خاطر لڑتے رہیں ؟ تو آپ اس کے سینے میں مکا مارا؛ اورفرمایا: خاموش ہو جاؤ ؛ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:’’اﷲ تعالیٰ متقی گمنام اور بے نیاز آدمی کو پسند کرتے ہیں ۔‘‘