کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 445
بھی دعوی کی بہ نسبت زیادہ ممکن ہے۔
اگر شیعہ اقوال و آثار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب ثابت کریں تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں وارد شدہ آثار اکثر و اصح ہیں ۔ اور اگر شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل پر تواتر اور صحت روایات کا دعوی کریں ؛ تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں واردتواتر زیادہ صحیح تر ہے۔اوراگر شیعہ نقل صحابہ کا دعوی کریں تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں منقول آثار بہت زیادہ ہیں ۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ شیعہ دعوی کرتے ہیں سوائے چند افراد کے باقی تمام صحابہ مرتد ہوچکے تھے[1]۔تو پھر ان کے اس قول کے مطابق ان میں سے کسی ایک کی روایت کسی صحابی کے فضائل ومناقب میں کیونکر قابل اعتماد ہوسکتی ہے۔ اور رافضیوں میں کوئی زیادہ صحابی نہیں تھے جن سے تواتر کیساتھ نقل کریں [بلکہ رافضیوں میں کوئی صحابی نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کریں ]۔
ان کے ہاں نقل روایت کے تمام طرق منقطع ہیں ۔ اگر یہ لوگ اہل سنت کی راہ پر نہ چلیں تو کوئی روایت پیش ہی نہ کرسکیں ۔ جیسے نصاری اگر مسلمانوں کی روش اختیار نہ کریں تو ان کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کو ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فقیہ تھے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھے۔ یا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فقہیات کے عالم تھے اور عمر رضی اللہ عنہ فقہ سے نابلد تھے۔یا حضرت علقمہ و اسود رضی اللہ عنہماتوفقیہ تھے ؛ مگر عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ نہیں جانتے تھے۔یا اس طرح کسی چیز کے لیے وہ حکم ثابت کرنا جو اگرکم تر درجہ چیز میں ثابت کیا جائے تو اس سے بڑے درجہ میں خود بخود ثابت ہوجائے۔ یہ تناقض کا مسلک اہل علم وعدل کے ہاں ممتنع ہے ۔ [یہ ظلم و جہل کی راہ ہے اور شیعہ اسی راہ کے سالک ہیں ]۔رافضی لوگوں میں سب سے بڑے گمراہ
[1] ۔کلینی روایت کرتا ہے کہ ابو جعفر نے فرمایا:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تین اشخاص کے سوا تمام لوگ مرتد ہو گئے تھے۔ میں نے عرض کی وہ تین کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا مقدادبن اسود، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی۔‘‘[ الروضۃ من الکافی: ۸؍ ۲۰۹۴، حدیث نمبر: ۳۴۱۔ رجال الکشی: ۱؍ ۱۸، حدیث نمبر ۱۔]
شیعہ عالم تستری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہتا ہے:’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے بے شمار لوگوں کو ہدایت دی لیکن وہ آپ کی وفات کے بعد ایڑیوں کے بل پلٹ گئے۔‘‘ [احقاق الحق وازھاق الباطل: ۳۱۶۔]
الجزائری نے کہا ہے کہ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار افراد کے سوا تمام لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ وہ چار یہ ہیں : سلمان فارسی، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود اور عمار۔اس بات میں ذرہ برابر اشکال نہیں ہے۔‘‘[الأنوار النعمانیۃ: ۱؍ ۸۱۔]
فضیل بن یسار، ابو جعفر سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’ بے شک جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو چار افراد کے سوا تمام لوگ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے۔ وہ چار یہ ہیں : علی، مقداد، سلمان اور ابوذر۔ ‘‘ میں نے پوچھا حضرت عمار کو شمار نہیں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو بالکل تبدیل نہ ہوئے تو وہ یہی تین ہیں ۔‘‘[تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۲۳۔ حدیث نمبر: ۱۴۹ سورۃ آل عمران۔ تفسیر الصافی: ۱؍ ۳۸۹ تفسیر البرہان: ۱؍ ۳۱۹۔ بحار الأنوار: ۲۲؍ ۳۳۳۔ حدیث نمبر: ۴۶۔ باب فضائل سلمان وأبی ذر ....‘]