کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 444
اگر شیعہ کہے کہ صحابہ اندرونی طور پر منافق اور دین اسلام کے معاندو مخالف تھے تو ایک خارجی بڑی آسانی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نفاق کا دعوی کرسکتا ہے۔
جب کبھی کسی شبہ کا ذکر کیا جائے تو اس کے جواب میں اس سے زیادہ طاقت ور شبہ پیش کیا جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ ان جھوٹے رافضیوں نے جو باتیں گھڑلی ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ وہ کہتے ہیں :
’’ بیشک ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمااندرونی طور پر منافق تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھتے تھے؛ان سے جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے دین کو خراب کیا ۔‘‘ تو اس کے جواب میں ایک خارجی بڑے آرام سے کہہ سکتا ہے کہ : آپ اپنے چچا زاد بھائی پر حسد کرتے تھے؛[ اور اس طرح اپنے کنبہ و قبیلہ میں عداوت کے مرتکب ہوتے تھے ]علاوہ ازیں آپ دین میں فساد بپا کرنے کے خواہاں تھے۔خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں آپ ایسا نہ کرسکے ؛ یہاں تک کہ آپ نے کوشش کرکے تیسرے خلیفہ کو شہید کروادیا۔ اور جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو خون ریزی کا بازار گرم کیا ؛ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور آپ کی امت کو بغض و عداوت کی وجہ سے قتل کرنے میں حد سے تجاوز کر گئے ۔ آپ باطن میں منافقین کی محبت رکھتے تھے جو آپ کے نبی یا الہ ہونے کے دعویدار تھے۔آپ اپنے باطن کے خلاف چیز کااظہار کیا کرتے تھے۔ تقیہ و نفاق کی راہ پر گامزن ہوئے۔ جب ان لوگوں کو آگ میں جلایا تو اس پر انکار بھی کیا ۔ اس لیے کہ آپ باطن میں ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اسی لیے باطنیہ آپ کے پیروکاروں میں سے تھے ۔ اور آپ کے اسرار انہی کے پاس ہیں ؛ اوروہ آپ سے وہ اسرار نقل کرتے چلے آرہے ہیں جسے وہ دین سمجھتے ہیں ۔
[[ باطنیہ فرقہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے والے آپ کی جانب وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی طرح پاک ہے]]۔
اس کے جواب میں ایک خارجی بھی ایسا کلام پیش کرسکتا ہے جو لوگوں کے درمیان مشہور کردیا گیا ہو؛ بلکہ وہ اس کلام سے بڑھ کر ہوگا جو روافض نے خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے متعلق مشہور کررکھا ہے۔ اس لیے کہ خارجی شبہ کی بہ نسبت رافضی شبہ کا فاسد و بیکار ہونا زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔جب کہ خود خوارج روافض کی بہ نسبت زیادہ صحیح[سچے] اور بامقصد لوگ ہیں ؛ اور رافضی سب سے جھوٹے اور دینی لحاظ سے فاسد لوگ ہیں ۔
اگر رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایمان و عدل قرآنی نصوص سے ثابت کرنا چاہیں تو ان سے کہا جائے گا کہ قرآنی نصوص عام ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان کا شمول کسی دوسرے صحابی کے شمول سے بڑھ کر نہیں ہے۔
علی ہذا القیاس شیعہ جس آیت کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مختص تصور کرتے ہوں بڑی آسانی سے اس آیت کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مخصوص قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف بغیر دلیل کے دعوی کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ، فریقین کے لیے اس کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔[دلیل کی روشنی میں ]حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کا دعوی دوسرے کسی