کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 443
رہے۔خوارج کا شبہ ان لوگوں کے شبہ سے زیادہ قوی ہے جو حضرات ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم پر قدح و طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ کہیں : ہم صرف اس کی بیعت کرسکتے ہیں ‘ جو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرے ‘ ظلم سے ہمارا دفاع کرے ؛ اور ظالم سے ہمارا حق ہمیں دلائے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے توپھر یا تووہ عاجز ہوگا یا ظالم ؛ او رہم پر واجب نہیں ہے کہ ہم ظالم یا عاجز کی بیعت کریں ۔
یہ کلام اگر باطل ہے؛ تو جو کوئی حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو ظالم اور مال ودنیا کے طلبگار کہتا ہے ؛ اس کا کلام سب سے بڑھ کر باطل ہے۔اس میں ادنی سی معرفت و بصیرت والا انسان ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کرسکتا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا اثبات :
[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیش رو بھی طلب امارت و ریاست سے پاک تھے]۔ واقعہ تحکیم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ ہر دو کو معزول کرنے اور شوریٰ سے خلیفہ منتخب کرنے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ہم نوا تھے۔ [1]
بتائیے: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے شبہات کو عبداﷲ بن سبا اور اس کے نظائر و امثال کے شکوک سے کیا نسبت جن کا دعویٰ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ الہٰ تھے یا معصوم تھے یا نبی تھے۔
بلکہ اس شبہ کا اس شبہ سے کیا تعلق ہے جو لوگ کہتے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیا جائے؛ اور ان لوگوں کا شبہ جو کہتے تھے کہ آپ إلہ یا نبی تھے ۔ یقیناً ایسا کہنے والے باتفاق مسلمین کافر ہیں ۔
یہ دلائل و شواہد اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ ایک رافضی اپنے مذہب کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عدل و ایمان ثابت نہیں کرسکتا،سوائے اس صورت کے کہ وہ اہل سنت وا لجماعت پر چلتے ہوئے ثابت کرے۔خوارج جو کہ آپ کو کافر یا فاسق کہتے ہیں ؛ اگر وہ رافضی سے کہیں : ’’ ہم یہ نہیں مانتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مؤمن تھے۔ بلکہ آپ کافر یا ظالم تھے [معاذ اللہ ] ؛ جیسا کہ رافضی حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے متعلق کہتے ہیں ؛ تو رافضیوں کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان وعدل پر دلیل نہیں ہوگی۔ اگر کوئی دلیل پیش کرے گا تو وہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے ایمان پر زیادہ وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہوگی۔
اگر رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسلام اور ہجرت وجہاد کے اثبات میں احادیث متواترہ سے استناد کرے گا توایسی متواتر روایات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں ۔بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ؛یزید ؛ خلفاء بنی امیہ و بنو عباس کا اسلام ؛ ان کے روزے ؛ نمازیں ؛ کفار کے ساتھ جہاد بھی ایسے ہی تواتر کیساتھ ثابت ہے۔
[1] قضیہ تحکیم سے متعلق صحیح بات یہی ہے،حضرت ابو موسیٰ اور عمر و بن العاص رضی اللہ عنہم اس امر میں متحد الخیال تھے کہ کبار صحابہ کے مشورہ سے خلیفہ منتخب کیا جائے، (العواصم من القواصم: ۱۷۲۔۱۸۱) کے حواشی میں اس کے دلائل پیش کیے ہیں ، کتاب ہذا میں اپنے موقع پر ان عظیم حقائق کی نشاندہی کی جائے گی۔