کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 442
اور صاحب امانت و دیانت کو اپنا قائم مقام مقرر کیا۔[[جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تقرر میں کنبہ پروری، اقربا نوازی اور دنیا طلبی کا کوئی جذبہ کار فرمانہ تھا، بلکہ مسلمانوں کی نفع رسانی کی خاطر آپ نے یہ اہم کام سر انجام دیا۔ چنانچہ آپ کی بصیرت و فراست کو سراہا گیا اور آپ کے اس بے پایاں احسان کا شکریہ ادا کیا گیا]]۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف شہر اور ملک فتح کئے، دفتر بنائے، بیت المال کو زر و مال سے بھر دیا اور لوگوں میں عدل و انصاف کو فروغ دیا۔ [[بایں ہمہ آپ اسی شاہراہ پر گامزن رہے جس پر قبل ازیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چلا کرتے تھے ، عیش پرستی اور نعمت کوشی کی زندگی سے کنارہ کش رہے، اقرباء نوازی سے احتراز کیا تاآنکہ شہادت پاکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے]]۔ ان مسلمہ حقائق کے باوجود اگر ایک شیعہ کہے کہ یہ سب کچھ طلب دنیا اور جاہ طلبی کے جذبہ کے پیش نظر تھا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما طالب دنیا تھے۔ تو ایک ناصبی بڑی آسانی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ [1]کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ آپ ریاست و امارت کے خواہاں تھے اور یہی جذبہ جدال و قتال کا محرک ہوا،یہاں تک کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ آپ کبھی کفار کے خلاف صف آراء نہ ہوئے، اور کبھی ایک شہر بھی فتح نہ کیا۔اور آپ کے عہد میں مسلمانوں کے مابین شر و فتنہ کے علاوہ کسی قسم کا کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اگر شیعہ یہ کہے کہ حضرت علی طالب رضی اللہ عنہ رضائے الٰہی کے طلب گار تھے[اور دین کے معاملہ میں مداہنت کرنے والے نہ تھے] مگر دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کوتاہی پر تھے۔یا یہ کہاجائے کہ:’’آپ مجتہد اور حق پر تھے ؛ اوردوسرے لوگ اس حالت میں خطا کارتھے۔ تو بیشک اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی رضائے الٰہی کے طلبگار ؛ مجتہد اور حق پر تھے ؛رافضی بدرجہ اولی ان کے حق معرفت میں کوتاہ اندیش ؛ ان کی مذمت میں خطاکار ہیں ۔ اس لیے کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے مال و دنیا کی طلب کا شبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت بہت دور کا شبہ ہے۔ خوارج جو کہ حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے ہیں ؛ ان کا شبہ رافضیوں کے شبہ کے قریب تر ہے جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی مذمت کرتے ہیں اور انہیں کافر کہتے ہیں ۔ توپھر ان صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کے متعلق ان کا کیا نظریہ و خیال ہوگا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہے ‘ اور ان سے برسر پیکار
[1] جس طرح اس جاہل نصرانی نے قسطنطنیہ میں امام باقلانی کے روبرو سیدہ عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی کر کے اپنے اہل مذہب کا منہ چڑایا تھا، اسی طرح شیعہ کا یہ فعل مسلم کامل خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے باعث ننگ ہے۔ نوع انسانی میں سے چیدہ و برگزیدہ اصحاب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شیعہ کا مسلک مقابلہ و موازنہ پر مبنی ہے،حضرت علی اور ان کی اولاد کا مقام اہل سنت کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ ان کو میدان مقابلہ میں کھینچ لائیں ، جس طرح انبیاء و رسل کے متعلق ہمارا موقف حسب ارشاد ربانی: ’’ لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ ‘‘ عدم تفریق پر مبنی ہے، اسی طرح صحابہ کرام کے متعلق ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے استاد محترم (سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: تھا:’’ اَصْحَابِیْ کَالنَّجُوْمِ بِاَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ ‘‘ ’’ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ، تم جس کی پیروی کرو گے راہ راست کو پالو گے۔‘‘ (جامع بیان العلم لابن عبد البر(۲؍۹۱) الاحکام لابن حزم(۶؍۸۲) یہ ضعیف روایت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلۃ الضعیفۃ للشیخ الالبانی،ص:۵۸)۔