کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 441
رفقاء کار آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے گئے،انہوں نے آپ کے خلاف خروج کیا‘[ اور آپ کو کافر قرار دے کر یوم النہروان میں آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے]۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ کوقتل کردیا۔ اگر یہ گفتگو خلاف تہذیب اور مبنی پر فساد ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں روافض کی گستاخی اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ شیعہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں جو گل افشانی کرتے ہیں اگر وہ درست اور مبنی برحق و صواب ہے تو اس کلام کے غلط ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
شیخین کے اوصاف خصوصی:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت بلا جبر و اکراہ لوگوں کی مرضی سے عمل میں آئی اور استحکام پذیر ہوئی تھی۔نہ آپ نے کسی کو[بیعت کی خاطر]مارا ؛ اورنہ ہی کسی پر تلوار چلائی؛نہ ہی کسی نے آپ کی نافرمانی کی ؛ او رنہ ہی کو کوئی مال دیا۔ سب لوگ نے باتفاق آپ کو خلیفہ تسلیم کیا ۔ آپ نے اپنے عزیز و اقارب میں سے کسی کو کوئی عہدہ تفویض نہیں کیا۔نہ ہی مسلمانوں کے بیت المال سے اپنے وارثوں کے لیے کوئی مال باقی چھوڑا۔ بخلاف ازیں اپنا سب اثاثہ اﷲ کی راہ میں لٹا دیا؛ اور اس کا کوئی بدلہ آپ نے نہیں لیا۔ اور فوت ہوتے وقت یہ وصیت کر دی کہ گھر میں جو کچھ ہے، سب بیت المال کی نذر کر دیا جائے۔ گھر میں ایک بوسیدہ چادر، ایک لونڈی اور ایک اونٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔[1]یہاں تک حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عمر رضی اللہ عنہماسے کہا: کیا تم یہ بھی آل ابو بکر سے لے لو گے ؟ اللہ کی قسم ! ایسا ہرگز نہیں ہوگا؛ میں ابو بکر کی قسم پوری کروں گا ‘ اور اس کی قیمت میں ادا کروں گا[اور مال آل ابو بکر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جائے]۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں یہاں تک کہا کہ:
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ آپ پر رحم فرمائے؛ آپ نے بعد میں آنے والے امراء کو بڑی مشکل میں مبتلا کر دیا۔‘‘[2]
آپ کے عہد خلافت میں کوئی مسلمان قتل نہیں کیا گیا تھا۔اور نہ ہی کسی مسلمان نے کسی مسلمان سے جنگ کی۔ بلکہ آپ نے مسلمانوں کی معیت میں مرتدین و کفار کے خلاف جنگ لڑی تھی۔آپ کے دور میں بیرونی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب آخری وقت آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ [3] جیسے نادرۂ روز گار تندرست و توانا
[1] طبقات ابن سعد(۳؍۱۳۶)
[2] طبقات ابن سعد(۳؍۱۳۶)
[3] سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے عمر فاروق، کو ’’القوی الامین ‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔حضرت فاروق زکوٰۃ کے اونٹوں کے ساتھ مصروف تھے،حضرت علی و عثمان رضی اللہ عنہما آپ کی مدد کر رہے تھے،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جناب فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنائی:﴿ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَِمیْنُ ﴾ ۔سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کا لقب ’’ عبقری ‘‘ (نادرۂ روزگار) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب سے ماخوذ ہے جس کی تفصیلات قبل ازیں بیان کی جا چکی ہیں ، تاریخ کی یہ دو عظیم ترین شہادتیں اسلامی بلکہ اس سے بڑھ کر انسانی عدل و انصاف کی زندہ جاوید مثالیں ہیں ، اسلامی تاریخ گویا بزبان حال یوں کہہ رہی ہے:’’غیظ و غضب میں گھل گھل کے مرجاؤ، دراصل تم ابوبکر و عمر کے دشمن نہیں ہو بلکہ اس دین اسلام سے عدوات رکھتے ہو جس کے وہ دونوں نمائندہ ہیں ، بلکہ یوں کہئے کہ تم اس انسانیت کے دشمن ہو جس کی جانب منسوب ہونے کے تم مدعی ہو۔‘‘