کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 440
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ﴾ ’’وہ آپ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں ، فرما دیجیے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ﴿وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ﴾ [البقرۃ ۲۱۷] ’’اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘ کفارنے مسلمانوں کے ایک سریہ کو عار دلائی تھی اس لیے کہ انہوں نے حرمت والے مہینے میں ابن الحضرمی کو قتل کر دیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:یہ قتل واقعی بڑا [گناہ ]ہے۔اس کے مقابلہ میں مشرکین جس کفر پر ہیں ‘اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں ؛ اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ؛ مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘اس لیے کہ یہ ایسی چیز سے روکنا ہے جس کے بعد نجات اور سعادت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ نیز مسجد الحرام کی حرمت پامال کرنا حرمت والے مہینہ کی پامالی سے بڑھ کر ہے ۔ لیکن اس قسم میں دونوں فریقوں کی مذمت کا عنصر شامل ہے۔ جب کہ پہلی قسم: جس میں دونوں فریقین کی مذمت نہیں ۔بلکہ اس میں دو جگہوں پر شبہ ہے؛ او ردونوں کے پاس دلائل ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ کے دلائل زیادہ مضبوط اور ظاہر ہیں ۔ اوران کا شبہ بڑا کمزور اور مخفی ہے۔ تو ان لوگوں کا مسئلہ ثابت ہونے میں ان لوگوں کی نسبت زیادہ حقدار ہے جن کی دلیلیں کمزور ہیں ‘ اور شبہات قوی ہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ یہودو نصاری کایہی حال ہے۔ اور اہل سنت والجماعت کیساتھ اہل بدعت خصوصاً رافضی بھی اسی ڈگر پر چلتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر و علی رضی اللہ عنہماکی نسبت ایک سنی و شیعہ کا معاملہ بعینہ اسی نوعیت کا ہے۔ ایک شیعہ اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان و عدالت اور دخول جنت کو ثابت نہیں کر سکتا جب تک حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے لیے ان کا اثبات نہ کیا جائے، اگر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان جملہ امور کا اثبات کرے گا، اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اس سے مستثنیٰ قرار دے گا تو دلائل و براہین اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اسی طرح ایک عیسائی جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز کر کے حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کا اثبات کرے گا تو دلائل اس کی موافقت نہیں کریں گے۔ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے اور نواصب آپ کو فاسق قرار دیتے ہیں ؛اگر جب خوارج و نواصب شیعہ سے کہیں گے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ظالم اور خلافت کے خواہاں تھے، اسی بنا پر وہ شمشیر بکف اپنے اعداء سے لڑتے تھے۔ آپ نے ہزارہا بے گناہ مسلمانوں کو تلوار کے گھاٹ اتارا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ بے بس ہوگئے۔