کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 439
اور وہ آپ پر نکتہ چینی کرے گا تو یہودی اس سے کہیں بڑھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کا مرتکب ہوگا۔ اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبات کرنے والے دلائل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے دلائل وبراہین سے کہیں بڑھ کر ہیں ، علاوہ ازیں وہ عیسوی دلائل کی نسبت شکوک و شبہات سے بعید تر ہیں ۔ اگر اس پر قدح کرنا جائز ہے جس کی دلیلیں بہت زیادہ [اور صحت میں پختہ ] ہیں ؛ اور اس کے متعلق شبہات بھی بہت کم ہیں ‘ توپھر جو اس سے کم درجہ کا ہو‘ وہ اس قدح کا زیادہ حق دار ہے۔ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں قدح کرنا ناجائز ہے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح کرنا بالکل باطل اور ناجائزہے۔ اس لیے کہ جب مضبوط شبہ زائل ہوجائے تو کمزور شبہ بہت جلدی ختم ہوجاتا ہے۔جب کسی کمزور دلیل سے حجت ثابت ہوجائے تو پھر قوی دلیل سے بطور اولی حجت ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بہت سارے مناظرے عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین ہوئے ہیں ۔ جس طرح معروف حکایت ہے کہ : جب ابوبکر بن باقلانی رحمہ اللہ سفیر بن کر شاہ روم کے دربار میں قسطنطنیہ پہنچے تو آپ کی عظمت و شان کے پیش نظر رومیوں نے محسوس کیا کہ آپ بادشاہ کو سجدہ نہیں کریں گے۔ چنانچہ آپ کو ایک چھوٹے سے دروازے سے داخل کیا تاکہ جھک کر داخل ہوں ۔ علامہ باقلانی رحمہ اللہ تاڑ گئے اور دربار میں الٹے پاؤں سرین کے بل داخل ہوئے؛ جو کچھ نصاری چاہتے تھے اسکا الٹ کردیا۔جب آپ تشریف فرما ہوئے اور عیسائیوں نے آپ سے بات چیت شروع کی ۔ ایک رومی مسلمانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہنے لگا، تمہارے پیغمبر کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کیا کہا گیا ہے۔‘‘ یہ واقعہ افک کی جانب اشارہ تھا؛ جیسا کہ رافضی بھی ایسی ہی باتیں کہتے ہیں ۔ باقلانی رحمہ اللہ یہ سن کر بولے : ’’بیشک دوپاکدامن عورتوں پر بہتان گھڑا گیا ‘ اور ان پر زنا کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا.... اور وہ ہیں حضرت مریم و عائشہ رضی اللہ عنہما ۔حضرت مریم رضی اللہ عنہا دو شیزہ ہی تھیں کہ ان کے یہاں بچہ تولد ہوا۔ مگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خاوند کے باوجود بے اولاد ہیں ۔ نصرانی ہکا بکا رہ گیا، کچھ جواب بن نہ آیا۔ اور اس پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و براء ت حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے مقابلے میں نمایاں تر ہے۔اور یہ شبہ حضرت عائشہ کی نسبت حضرت مریم پر قریب تر ہے ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی جب حضرت مریم پر بہتان لگانے والوں کا جھوٹ ثابت ہوگیا ؛ توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کا جھوٹا ہونا بدرجہ اولی ثابت ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگرفضیلت کے بارے میں دو گروہوں کے مابین مناظرہ ہو۔ ان میں سے ایک گروہ کی بھلائیاں او رخوبیاں زیادہ تھیں ‘ اور برائیاں کم اور چھوٹی تھیں ۔جب ان بھلائیوں میں سے کسی کا تذکرہ کیا جائے تواس پر مقابلہ میں دوسرے کی بڑی برائیاں گنی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :