کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 437
اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ آپ کے طلب کیے بغیر انہوں نے آپ کو خلیفہ چن لیا ۔
[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کی بیعت کرنے والوں کا زہد]
تیسری وجہ : بفرض محال اگر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ امارت کے طالب تھے اور لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی تھی۔ تو شیعہ کا یہ قول صریح قسم کی دروغ بیانی ہے کہ لوگوں نے طلب دنیا کی بنا پر آپ کی بیعت کی تھی۔ یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں مال دنیا میں سے کچھ بھی نہیں دیا۔آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات اپنا سب مال خرچ کر دیاتھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی تو آپ نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے پوچھا : گھر کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو آپ نے گزارش کی : ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘ [تخریج گزرچکی ہے]۔[اور خلافت کے دوران آپ خالی ہاتھ تھے۔][1]
مزید برآں آپ کی بیعت کرنے والے دنیا طلبی سے بے نیاز تھے۔یہی وہ لوگ تھے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ یہ حقیقت دور و نزدیک سب کو معلوم ہے کہ حضرت عمر، ابو عبیدہ اور ان کے نظائر و امثال رضی اللہ عنہم زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔انصار کے انفاق فی سبیل سے بھی کوئی بے خبر نہیں ؛ جیسے حضرت اسید بن حضیر؛ ابو طلحہ ؛ ابو ایوب اور ان کے امثال؛ رضی اللہ عنہم ۔ مزید برآں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کوئی بیت المال نہ تھا، جس سے آپ ان کو کچھ سامان بہم پہنچاتے۔ اور نہ ہی اس وقت کوئی دیوان تھا جہاں سے لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا جاتا ۔ انصار اپنی املاک میں موجود تھے۔ایسے ہی مہاجرین میں سے جس کسی کے لیے مال غنیمت وغیرہ میں سے کچھ موجود تھا ‘ وہ اسی کے لیے تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مال غنیمت کی تقسیم میں مساوات کے قائل تھے۔ اگر صحابہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرتے تو وہ بھی انہیں اسی قدر مال دیتے جتنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عطا کیا تھا۔حالانکہ آپ کا قبیلہ بنی تمیم سے افضل تھا۔[مزید برآں آپ کا کنبہ قبیلہ اور چچا زاد بھائی حسب و نسب کے اعتبار سے افضل الصحابہ رضی اللہ عنہم تھے]۔بنو عبدمناف قریش کے اشرف ترین لوگوں میں سے تھے جو کہ دوسرے لوگوں کی نسبت بنو امیہ کے قریب تر تھے ۔جیسے ابو سفیان بن حرب؛اور بنی ہاشم جیسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ جاہلیت کے دستور کے مطابق امارت بنی عبدمناف میں رہے۔آپ نے اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بات بھی کی تھی؛ مگر نہ ہی اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مانا نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اورنہ ہی کسی دوسرے نے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے علم و فضل
[1] ذکر البخاری 2؍112؛ کتاب التہجدِ، باب لا صدقۃ إِلا عن ظہرِ غِنی؛ أن أبا بکر تصدق بِمالِہِ کلِہِ. وأورد بو داود2؍173؛ کتاب الزکاۃِ، باب فِی الرخصۃِ فِی ذلک