کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 434
’’اہل ایمان مومنوں کو چھوڑ کر کفار کو دوست نہ بنائیں جو ایسا کرے گا تو اﷲ کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ، البتہ یہ کہ کفار سے بچاؤ حاصل کرو تو الگ بات ہے۔‘‘ یہاں پر اس آیت مبارکہ میں کافروں سے بچنے کا حکم ہے نہ کہ جھوٹ بولنے اور نفاق برتنے کا حکم ۔ جس انسان کو مجبور کیا جائے تواللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مباح ٹھہرایا ہے کہ وہ بوقت مجبوری اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کفرکہہ دے۔ بشرط کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ اہل بیت مقہور و مجبور نہ تھے: مگر اہل بیت کا معاملہ مختلف نوعیت کا ہے ان کو کسی شخص نے کسی بات پر مجبور نہیں کیا تھا۔ اس کی حدیہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اہل بیت کو اپنی بیعت پر مجبور نہیں کیا تھا،اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنی بیعت کے لیے مجبور کیا۔ بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے بخوشی بیعت کی تھی۔اور نہ ہی حضرت نے کسی کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کی مدح سرائی کریں اور تعریف و توصیف کے پل باندھیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کسی جبرو اکراہ کے ماتحت صحابہ کے فضائل و مناقب نہیں بیان کرتے تھے ۔ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی بات پر مجبورنہیں کیا جاتا تھا ؛ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ بنوامیہ و بنو عباس کے عہد خلافت میں بہت سے لوگ ایمان و تقویٰ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فروتر تھے۔ وہ خلفاء میں گوناگوں عیوب و نقائص ملاحظہ کرتے، مگر ان کی مدح و ثناء میں رطب اللسان ہوتے نہ ان کی تعریفوں کے پل باندھتے اور نہ ہی خلفاء جبراً ان سے یہ کام لیتے۔ خلفائے راشدین تو باقی سلاطین کی نسبت جبر و اکراہ سے مبرا اور بالا تر تھے۔ ان [بنو امیہ اور بنو عباس]کے دور میں جب لوگوں کو کسی ایسی بات پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی زبانوں سے ایسی بات کہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ۔ تو پھر خلفاء راشدین کے دور کے متعلق یہ کیسے تصور کیا جاسکتاہے ؟ بلکہ [پھر یہ کہا جائے کہ ] انہیں جھوٹ بولنے ‘ جھوٹی گواہی دینے اور کفر کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جاتاتھا ؛ جیسا کہ رافضی کہتے ہیں ‘ حالانکہ انہیں کسی نے ایسا کہنے پر مجبور نہیں کیا ۔ تو معلوم ہوا کہ رافضی جس چیز کا اظہار کرتے ہیں وہ جھوٹ اور منافقت کے باب سے ہے۔ وہ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ۔ یہ اس باب سے نہیں کہ مؤمن کو کوئی کلمہ ء کفر کہنے پر مجبور کیا جائے اوروہ کلمہ کفر کہہ دے۔ بلاد کفار میں جتنے بھی مسلمان قیدی ہیں ؛ ان میں سے اکثر اپنے دین کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایسے ہی خوارج باوجودیکہ جمہور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ‘ اورحضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہمااور ان کے چاہنے والوں کی تکفیر کرتے ہیں ‘ مگر اس کے باوجود وہ اپنے دین کا اظہار کرتے ہیں ۔ جب وہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ سکونت پذیر ہوتے ہیں تو وہ