کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 433
شیعہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ پربہتان طرازی کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:’’ اَلتَّقِیَّۃُ دِیْنِیْ وَدِیْنُ اٰبَائِیْ۔‘‘
’’تقیہ میرا اور میرے آباء کا دین ہے۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا ہے:
’’اور اس شخص کا کوئی ایمان ہیں جس کے پاس تقیہ نہیں ہے۔‘‘ [1]
حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اہل بیت کے مؤمنین کو اس سے منزہ اوربے نیاز رکھا تھا اور ان کا دامن اس گندسے پاک تھا۔ وہ لوگوں میں سب سے سچے اور ایمان میں عظیم تر تھے۔ بنا بریں ان کا دین تقویٰ تھا نہ کہ تقیّہ ۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّا اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً﴾ (آل عمران:۲۸)
[1] الکافی ج۱؍۱۷۴ج ۲؍۲۱۸۔۲۱۹،تفسیر العیاشی ج۱؍۲۱۴وج ۲؍۳۵۱ تفسیر البرھان ج۱؍۳۰۹۔
ان کے شیخ المفید نے کہا ہے : ’’ اَلتَّقِیَّۃُ کَتْمَانُ الْحَقِّ وَسَتْرُالْاِعْتِقَا دِفِیْہِ ،وَکِتْمَانُ الْخُاَلِفِیْنَ وَتَرْکُ مُظَاہَرَتِھِمْ بِمَا لَعْقُبُ ضَرَرًا فِی الِدّیْنِ أَوَ الدُّنْیَا ‘‘[شرح عقائد الصدق ص: ۲۶۱۔ ملحق بکتاب أوائل المقالات ۔]‘‘ ’’ تقیہ ، حق کو چھپنا اور اس میں اپنے اعتقاد کو ڈھانپ لینا مخالفین سے چھپنا اور ان کے سامنے ایسے اظہار کو ترک کر دینا ہے جس کے باعث دین یا دنیا میں کسی طرح کے ضرو کا اندیشہ ہو۔ ‘‘
محمد جواومغنیہ نے کہا ہے تقیہ یہ ہے کہ تو ایسی بات کہے یا ایسا کام کرے جس پر تیر اعقیدہ نہ ہونا کہ تو اپنے نفس سے یا اپنے مال سے ضرر کو دور کر سکے یا تو اپنی عزت وکرامت کی حفاظت کر سکے۔[الشیعۃ فی المیزان ص:۴۸ لأیتھم محمد جواد مغنیۃ ، جو لبنان میں بیروت میں جعفری عدالت کے رئیس ہیں دارالتعارف للمطبوعات ۔]
خمینی نے تو اس سلسلہ میں حد ہی کردی؛ اس نے کہا ہے:’’ بے شک انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے اپنی باقی مخلوق پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی مگر لوگوں سے ان کے تقیہ کی وجہ سے ہے۔‘‘[المکاسب المحرمۃ للخیمینی ج۲؍۱۶۳ ]۔
روایت میں ہے کہ ابو عبداللہ نے فرمایا ہے:’’ بیشک تم ایسے دین پر ہو جو اسے چھپائے گا اللہ اسے عزت سے نواز گا اور جو اسے پھیلائے گا اللہ اسے ذلیل ورسوا کرے گا۔‘‘ أصول الکافی ج۱؍۲۲۲ وج ۲؍۲۲۲ وسائل الشیعۃ ج ۱۶؍ ۲۳۵۔بحارالأنوار ج ۷۲؍۷۲، المحاسن النفسانیۃ لحسین آل عصفور البحرانی ج۱؍۲۵۷۔
اور آخری بات بلاشبہ تقیہ کا تارک کافر ہے۔الاعتقادات لابن بابو ص: ۱۱۴۔۱۱۵۔ دیکھیے :أصول الکافی ج۲؍۲۲۰۔
ہمارے سادہ لوح سنی بعض شیعہ حضرات کو مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ائمہ کرام کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے کس لیے دیکھتے ہیں ؛ تو اسے ان کی رواداری اور وسعت ظرفی پر محمول کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس کے پیچھے ایک راز ہے۔ شیعہ علماء نے یہ روایت بیان کررکھی ہے:’’ جس نے ان[یعنی اہل سنت] کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کی تو گویا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ صف اول میں نماز ادا کی۔‘‘ [بحارالأنوار ج۵۷؍۴۲۱۔]
اورخمینی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ:’’ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز درست اور بہت زیادہ فضیلت والی ہے۔اور تقیہ کی حالت میں ان[اہل سنت ] کے ساتھ بالکل اسی طرح ہے۔‘‘ [رسالۃ فی التقیۃ ص:۱۰۸۔]
کیونکہ اس سے فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ سادہ لوح اہل سنت کو دھوکہ دے کر ان کے دلوں کو نرم کیا جاسکتا ہے؛ اور اس طرح ان کے معاشرہ میں اپنے لیے جگہ بناتے ہوئے اپنی دعوت کی راہیں کھولی جاسکتی ہیں ۔ مشاہدہ کے مطابق یہ تیر باہدف حربہ ہے۔