کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 432
وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾[المنافقون ۸ ] ’’وہ کہتے ہیں یقیناً اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ اس میں سے ذلیل تر کو ضرور ہی نکال باہر کرے گا، حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اورایمان والوں کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘ یہ آیت اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ عزت اہل ایمان کے لیے ہے منافقین کے لیے نہیں ۔اور اصحاب محمد عزت و قوت سے بہرہ ور تھے، اور منافق ان کے درمیان ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ پس یہ بات ممتنع ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کہ تمام مسلمانوں میں سب سے بڑھ کر عزت والے تھے ؛ ان کا شمار بھی منافقین میں سے ہو۔ بلکہ اس آیت کا تقاضا ہے کہ جو جتنی زیادہ عزت اور غلبہ والا ہو ‘ وہ اتنا ہی بڑا ایمان دار بھی ہو۔ [[مذکورۃ الصدرآیات میں ذکر کردہ صفات ایک ذلیل اور مقہور و مجبور قوم کی صفات ہی ہو سکتی ہیں ، اس کے عین برخلاف سابقین اولین مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور بعد از وفات ہمیشہ باعزت زندگی بسر کرتے رہے، یہ آیات اس امر کی شاہد عدل ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے باعزت صحابہ رضی اللہ عنہم کسی طرح بھی منافق اور ذلیل و رسوا نہ تھے ]]۔ اوریہ بات سبھی جانتے ہیں کہ سابقین اولین ‘ مہاجرین و انصار خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والے تھے۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ منافقین اہل ایمان کے درمیان ذلیل و رسوا تھے۔ پس یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہوسکتا کہ عزت و غلبہ رکھنے والے صحابہ کرام کا شمار منافقین میں ہو۔ اگر یہ وصف کسی پر صادق آتا ہے تو وہ رافضی اور ان کے ہمنوادوسرے لوگ ہیں جو صحابہ کرام پر معترض رہتے ہیں ۔ منافق کون ہے؟: سابق الذکر امور منافقت اور زندیقیت تمام فرقوں سے بڑھ کر رافضیوں میں پائی جاتی ہے۔ ذلت و رسوائی میں ان کا شمار ہے، نفاق و تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا اور کذب بیانی اور جھوٹی قسمیں اٹھانا ان کا سرمایہ افتخار!نفاق اور زندیقیت ہر فرقہ سے بڑھ کر رافضیوں میں موجود ہے۔ نفاق کی بنیاد جھوٹ پر ہے؛ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانوں سے وہ باتیں صادر ہوتی ہیں ، جو دل میں نہیں ہوتیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے متعلق خبر دی ہے کہ وہ اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی ۔ رافضیوں نے اسے اپنے دین کا اصول بنا لیاہے ؛ اور اسے تقیہ کا نام دیتے ہیں ۔ اور پھر اسے اپنے ائمہ اہل بیت سے حکایت نقل کرتے ہیں ؛ حالانکہ وہ حضرات عنداللہ اس چیز سے بری ہیں ۔ یہاں تک کہ