کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 431
’’جس دن منافق مرد اور عورتیں ایمان وا لوں سے کہیں گے: ہمارا انتظار کرو کہ ہم تمھاری روشنی سے کچھ روشنی حاصل کر لیں ۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پس کچھ روشنی تلاش کرو۔‘‘
پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ منافقین اہل ایمان میں داخل نہیں ہیں ۔ اور جو لوگ منافق تھے؛ ان میں سے کچھ نے توبہ کرلی ؛ اور نفاق سے باز آگیا؛ اوراکثر یہی ہوا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا٭مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْاتَقْتِیْلًا﴾[الاحزاب ۶۰۔۶۱]
’’یقیناً اگر یہ منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں جھوٹی خبریں اڑانے والے لوگ باز نہ آئے تو ہم تجھے ضرور ہی ان پر مسلط کر دیں گے، پھر وہ اس میں تیرے پڑوس میں نہیں رہیں گے مگر کم۔اس حال میں کہ لعنت کیے ہوئے ہوں گے، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے ،بری طرح ٹکڑے کیا جانا۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر مسلط نہیں ؛اور نہ ہی انہیں بالکل قتل کیا گیا؛ بلکہ یہ لوگ مدینہ کے گرد و نواح میں آباد رہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نفاق سے باز آگئے تھے۔
جو لوگ آپ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے؛ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرلی تھی؛ سوائے جد بن قیس کے۔ وہ سرخ اونٹ کے پیچھے چھپ گیاتھا۔ اس کے بارے میں حدیث میں آتاہے:
(( کلہم یدخل الجنۃ ِإلا صاحِب الجملِ الأحمرِ ۔))[1]
’’سرخ اونٹ والے کے علاوہ سبھی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘
خلاصہ کلام ! اس میں کوئی شک نہیں کہ منافقین چھپے ہوئے ؛ پست اور ذلیل لوگ تھے۔ بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں ۔ اورغزوہ تبوک میں ۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ
[1] یہ حدیث دوسرے الفاظ میں ملی ہے۔ رواہ مسلِم عن جابِرِ بنِ عبدِ اللہِ رضی اللّٰہ عنہ ؛ 4؍2144 ؛ کتاب صِفاتِ المنافِقِین وأحکامِہِم، الباب الأولِ؛ النووِی فِی شرحِہِ 17؍126 ۔
اس جد بن قیس کے بارے میں اکثر مؤرخین اور مفسرین نے ایسے ہی لکھاہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں اس کے حالات زندگی لکھے ہیں ۔ اس کا نام جد بن قیس بن صخر بن خنساء بن سنان بن عبید بن غنم بن کعب بن سلمہ ؛ الانصاری ؛ ابو عبداللہ ۔ یہ بنو سلمہ قبیلے کا سردار تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ماموں تھا۔ اور وہ چھوٹا ہی تھا کہ اسے اٹھا کر بیعت حقبہ میں لایا گیا تھا۔ ابن حجر نے اس حدیث کی اسناد کو قوی لکھاہے۔ اوراس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ایام میں اس نے توبہ کرلی تھی؛ اور اچھا مسلمان بن گیاتھا۔