کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 428
اگر کوئی انسان یہ کہے کہ : جیسے یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ تمام لوگ اس صفت سے موصوف ہوں ‘ ایسے ہی یہ بھی واجب نہیں ہے کہ تمام لوگ ان صفات کے حامل ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ [النور۵۵]
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ وعدہ فرما چکا ہے ۔‘‘
اس آیت کا تقاضا یہ بھی نہیں ہے کہ تمام لوگ مذکورہ بالا صفات سے متصف ہوں ۔
[جواب] ان سے کہا جائے گا: ہاں ؛ ایسے ہی ہے ۔فقط ان الفاظ کی وجہ سے ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ تمام لوگ ایمان اور عمل صالح سے متصف ہیں ۔مگر یہاں پر ہمارے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ:لفظ ’’من ‘‘ اس کے منافی نہیں ہے کہ یہ وصف ان لوگوں کو بھی شامل ہو۔ کوئی یہ بات نہیں کہتا کہ :
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ ﴾ (الفتح: ۲۹)
’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت آپس میں رحمدل ہیں ۔‘‘
اس آیت میں خطاب ِ تعریف ان تمام لوگوں کے لیے عام اور شامل ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ مدح ان صفات پر ہے جن کاتذکرہ کیا جاچکا۔ یعنی کفار پر سختی؛ آپس میں رحمت و شفقت ؛ رکوع اور سجدہ کرنا ؛ اللہ تعالیٰ کے فضل و رضامندی کی تلاش ؛ خصوصاً ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرات ؛ او ریہ کہ انہوں نے کمزوری سے ابتداء کی اور بتدریج قوت و کمال حاصل کرتے گئے ۔جیسے کہ کاشتکاری میں ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اوراجر عظیم کا وعدہ صرف ان صفات کی بنا پر نہیں ہے ‘ بلکہ ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہے ۔ جس سے وہ وعدے کے مستحق ہوں اللہ تعالیٰ نے وہ ذکر کیا ہے اگرچہ وہ سب کے سب ان صفات سے متصف ہوں ۔ اگر ان چیزوں کا ذکر نہ کیا جاتا توخیال کیا جاسکتا تھا کہ فقط اس ذکر کی وجہ سے یہ لوگ مغفرت اور اجر عظیم کے مستحق ٹھہرے ہیں ۔ اور اس میں اس جزاء کا کوئی سبب بیان نہ ہوتا۔بخلاف اس کے کہ جب ایمان او رعمل صالح کا ذکر کیا جائے ۔ اس لیے کہ جب حکم کو کسی مناسب اسم مشتق کے ساتھ معلق بیان کیا جائے تو اس حکم میں اشتقاق کا سبب بھی پایا جاتا ہے ۔
٭[اشکال]: باقی رہا یہ سوال کہ منافق بھی اس دور میں بظاہر مسلم ہونے کے دعویٰ دار تھے؟
[جواب ]:اس کاجواب یہ ہے کہ منافقین میں کوئی اچھا وصف نہ تھا، انہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین صحابہ میں کسی کی صحبت و رفاقت کا شرف حاصل نہ تھا،اورنہ ہی ان میں سے تھے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل آیات قابل ملاحظہ ہیں :
﴿ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ ٭وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ اِنَّہُمْ