کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 425
شوکت نے ان کے قدم چومے؛ خطرات کا ازالہ کر کے ملک میں امن و امان قائم کیا۔ فارس و روم کو زیر نگیں کیا، ان کی فتوحات کا سلسلہ شام و عراق مصر و مغرب و خراسان و آذر بائیجان اور افریقہ تک پہنچ گیا۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تواس کے بعد فتنہ پر دازی کا آغاز ہوا۔بلاد کفار میں فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور رومی اور دوسرے لوگ اسلامی بلا دو امصار کو حریصانہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔حالانکہ اس سے قبل یہ لوگ ڈر کر رہتے تھے۔ پس قرآن کریم حضرات صحابہ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ایمان اور ان کے پر امن دور خلافت وتمکنت میں جو لوگ ان کے ساتھ تھے ؛ ان کے ایمان پر دلالت کرتا ہے۔اور وہ لوگ جو اس خلافت و تمکین کے پر امن دور میں موجود تھے ‘ اور پھر انہوں نے فتنہ کے زمانہ کو پایا؛ جیسے :حضرت علی رضی اللہ عنہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ اورعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی اس آیت میں داخل ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے زمانہ خلافت پایا ‘ قدرت و شوکت سے بہرہ ور ہوئے ‘ اور امن و امان قائم کیا۔ دوسری جانب اس تفریق اور فتنہ کے دور میں بدعات کا آغاز ہوا اور مختلف فرقے سر اٹھانے لگے؛مثلاً : روافض جنہوں نے اسلام میں نئی نئی چیزیں ایجاد کیں ۔ نیز خوارج جو کہ اسلام سے نکل گئے ۔انہیں یہ نص شامل نہیں ہے۔پس ان کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا جنہیں اس آیت میں ایمان اور عمل صالح سے موصوف کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ اولاً : ان لوگوں کاشمار ان صحابہ میں نہیں ہوتا جو اس آیت میں مخاطب ہیں ۔ نیز ان کے لیے استخلاف و تمکین اور امن حاصل نہیں ہوسکا جیسا کہ صحابہ کرام کے مبارک دور میں ہوا تھا۔ بلکہ یہ ہمیشہ خوف و دہشت کا شکار اور افراتفری اور بے چینی میں رہے ۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا : ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ ﴾ [الفتح۲۹] ’’ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اورنیک اعمال کیے ....‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمام اہل ایمان سے اس نے وعدہ کیا ہے ‘ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے : ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ [النور ۵۵] ’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ وعدہ فرما چکا ہے ۔‘‘ [گزشتہ آیت میں ]ایسے نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے وعدہ کرتا ہے؛ جو لفظ’’مِنْ‘‘ بیان جنس کے لیے ہوتا ہے ‘اس کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ اسی لفظ کے ساتھ مجرور ہونے والا کلمہ اس سے باہر ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ﴾ [الحج ۳۰]