کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 422
بولتا ہے ‘ اور جب اس کے پاس حق بات آتی ہے ؛ تو اسے جھٹلاتا ہے ۔اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہی سچے لوگ تھے جو لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی دیتے تھے؛ اور ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن کتاب برحق ہے۔اورانبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سچائی پیش کرنے والوں اور سچائی کی تصدیق کرنے والوں میں سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ اہل قبلہ میں سے شیعہ سے بڑھ کر کوئی بھی فرقہ ایسا نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اس قدر جھوٹ بولنے والا اور حق بات کو جھٹلانے والا ہو۔ اس لیے اس فرقہ سے بڑھ کر کسی بھی فرقہ میں غلو نہیں پایا جاتا۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو بشر کے الہ ہونے کے دعویدار ہیں ۔ اور بعض شیعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ بعض اپنے ائمہ کے معصوم ہونے کے دعویدار ہیں ۔یہ باقی تمام فرقوں سے بڑھ کر جھوٹ کی آخری حدہے۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ اہل قبلہ کی طرف منسوب فرقوں میں سب سے زیادہ جھوٹ اسی فرقہ میں پایا جاتا ہے ۔
٭ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قُلِ الْحَمْدُ ِللّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ﴾ [النمل ۵۹]
’’فرما دیجیے: سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔‘‘
سلف کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت میں سے اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگوں میں سب سے افضل ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ٭جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا وَ لِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ٭وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُنِ٭الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ لَا یَمَسُّنَا فِیْہَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیْہَا لُغُوْبٌ﴾[فاطر۳۲۔۳۵]
’’پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث بنایا جنہیں ہم نے (اس وراثت کیلئے)اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ پھر ان میں سے کوئی تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے۔ کوئی میانہ رو ہے اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والاہے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔وہ ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا اور وہاں ان کا لباس ریشم کا ہوگا۔اور وہ کہیں گے اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ یقیناً ہمارا پروردگار بخشنے والا، قدردان ہے۔جس نے اپنے فضل سے ہمیں ابدی قیام گاہ میں اتارا جہاں ہمیں مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور نہ تھکان لاحق ہوتی ہے۔‘‘