کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 419
قال....:اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَOوَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (المائدہ:۵۱۔۵۶)
’’اے ایمان والو!تم یہود و نصاری کو دوست نہ بنا ؤ؛ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا.... یہاں تک کہ فرمایا....(مسلمانو!)تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع(خشوع و خضوع)کرنے والے ہیں ۔اور جو شخص اللہ تعالی سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالی کی جماعت ہی غالب رہے گی۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوا:﴿ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ﴾ (التوبہ:۷۱)
مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین دوستی کو ثابت کیا ہے ‘اور ان سے دوستی لگانے کا حکم دیا گیا ہے، مگر روافض اس کے برعکس ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ؛ ان سے دوستی نہیں کرتے۔دوستی کی اصل تو محبت پر قائم ہوتی ہے ۔ اور دشمنی کی اصل بغض و نفرت پر ہوتی ہے۔ رافضی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں محبت نہیں کرتے۔
بعض جہلاء نے اپنی طرف سے یہ قول گھڑ لیا ہے کہ درج ذیل آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں اپنی انگوٹھی بطور صدقہ ادا کردی۔[[ تب یہ آیت اتری، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رَاکِعُوْنَ ﴾ (المائدہ:۵۵)
’’جو نمازوں کی پابندی کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔‘‘]]
محدثین کے ہاں باتفاق اہل علم یہ روایت سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس کا جھوٹ کھل کر ظاہر ہوتا ہے :
[پہلی وجہ: یہ طرز استدلال سراسر غلط ہے، جسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ] آیت میں ’’الذین‘‘جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک تھے۔ مزید برآں ’’ وَہُمْ رَاکِعُوْنَ ‘‘میں واؤ حالیہ نہیں ۔ اگر واؤ کو حالیہ قرار دیا جائے تو زکوٰۃ کا حالت رکوع میں ادا کرنا ایک ضروری امر ہوگا۔توپھر صرف اس سے محبت و دوستی رکھی جائے جو حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرے۔اس کے علاوہ باقی تمام صحابہ اور اہل بیت سے دوستی نہ کی جائے۔
مزید برآں کسی کی مدح امر واجب یا مستحب کی بنا پر کی جاتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حالت نماز میں زکوٰۃ ادا کرنا بالاتفاق واجب ہے نہ مستحب۔اس پر تمام اہل ملت کا اتفاق ہے۔