کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 416
تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ مسلمانوں میں کوئی ایک بھی دوسرا ایسا نہیں تھا جسے آپ پر مقدم کیا جاتا ۔ بلکہ تمام کے تمام مسلمان آپ کی فضیلت سے بخوبی آگاہ تھے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فضیلت کو قرآن میں بیان کیا ہے ‘ ارشاد فرمایا : ﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی ﴾ [الحدید۱۰] ’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ خرچ کیا اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے)برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے،ہاں ان سب سے اللہ تعالیٰ کی طرف بھلائی کا وعدہ ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں فتح سے پہلے جہاد کرنے والوں اور اس کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت کا اعلان کیا ہے ۔ یہاں پر فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیبیہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ : کیا یہ فتح ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ ہاں ۔‘‘ [1] اہل علم جانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی تھیں : ﴿اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا oلِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا oوَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا﴾ [الفتح ۱۔۳] ’’بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔تاکہ آپ کی سابقہ اور آئندہ لغزشیں ؛ سب کو اللہ تعالی معاف فرمائے اور آپ پر اپنا احسان پورا کر دے اور آپ کو سیدھی راہ چلائے۔اور آپ کو ایک زبردست مدد دے۔‘‘ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اہل ایمان عرض گزار ہوئے : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو آپ کے لیے ہوا؛ ہمارے لیے کیا ہے ؟ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ﴾ [الفتح ۴] ’’وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ ایمان میں اور بڑھ جائیں ۔‘‘ یہ آیت فتح سے پہلے خرچ کرنے والوں کی فتح کے بعد خرچ کرنے والوں پر فضیلت کے باب میں ایک نص کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں :
[1] سنن أبي داؤد ۳؍۱۰۱۔