کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 41
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر فرمایا :’’حضرت ابوبکر و عمر افضل الصحابہ ہیں ۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ مذکورہ بالا حدیث اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے عین مطابق ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی حقائق بھی اسکی تائید و تصدیق کرتے ہیں ۔ چونکہ ہم نے علوم کتاب و سنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔
لہٰذا صحابہ کی مدح و تعدیل سے گویا ہمارے اعتماد کتاب و سنت کی تائید ہوتی ہے ، البتہ ابن المطہر اور دیگر شیعہ امامیہ.... جن کو امام زید بن علی بن حسین رافضی کہہ کر پکارتے ہیں .... کا زاویہ نگاہ اس ضمن میں ہم سے مختلف ہے چنانچہ اس کی تفصیل[آگے] مناسب موقع پر آئے گی۔
حدیث نبوی اور شیعہ:
جو اصول و قواعد ہمارے اور شیعہ کے مابین وجہ فرق و امتیاز ہیں ، ان میں سے ایک بنیادی امر یہ ہے کہ احادیث نبویہ کتاب الٰہی کے بعد تشریع اسلامی کی اساس و معیار ہیں ۔ یہ احادیث ان صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچیں جو حد درجہ عادل و امین اور حافظ و ضابط تھے۔ فن حدیث کے نقاد ان کی سیرت و کردار اور فنی مہارت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ محدثین نے روایت حدیث میں بے حد احتیاط سے کام لیا۔ جو شخص حد درجہ عبادت گزار اور صلاح و تقویٰ میں یگانہ روز گار ہو، اگر روایت حدیث میں سہل انگاری سے کام لیتا ہو، تو اس کی روایت محدثین کے نزدیک قابل حجت نہیں ہے۔ جو شخص آغاز زندگی میں حافظ و ضابط اور امانت و عدالت کی صفات سے بہرہ ور ہو پھربڑا ہو کر نسیان کے عارضہ کا شکار ہوجائے تو اندریں صورت محدثین کے نزدیک اس کی وہ روایات مقبول ہیں جو اس نے حالت صحت میں اس مرض میں مبتلا ہونے سے قبل روایت کیں ، مرض میں مبتلا ہونے کے بعد کی روایات پایہ استناد سے ساقط ہیں ۔بخلاف ازیں شیعہ روایت حدیث میں امانت و عدالت اور حفظ و اتقان کی چنداں پروا نہیں کرتے۔شیعہ کی معتبر کتب مثلاً ’’الکافی‘‘اور دیگر کتب میں حد درجہ دروغ گو لوگوں کی روایات درج ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ کے یہاں ثقاہت و صداقت کا معیار یہی ہے کہ راوی کس حد تک شیعہ مذہب کا حامی اہل بیت کا محب اور ان کے اعداء سے کہاں تک بغض و عناد رکھتا ہے۔ہم قبل ازیں ان کی معتبر کتاب الکافی سے چند روایات نقل کر چکے ہیں جن میں انہوں نے قرآن کی صحت کو مشتبہ قرار دیا ہے۔ بنا بریں اس میں مزید جھگڑے و نزاع کی کوئی گنجائش نہیں۔
جب مسلمان ہسپانیہ میں برسر اقتدار تھے تو وہاں کے پادری[بوقت مناظرہ] امام ابن حزم رحمہ اللہ کے خلاف شیعہ کے اس قول سے احتجاج کیا کرتے تھے کہ قرآن محرف ہوچکا ہے ان کی تردید میں امام موصوف رحمہ اللہ مجبوراً فرماتے: