کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 409
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد کی ہے کہ امت میں اتنا اختلاف واقع ہوگیا تھا؛توپھر ان باقی سارے احوال کا کیا عالم ہوگا جن سے استدلال کیا جارہا ہے ۔ اس حکایت میں جتنے بھی جھوٹ ہیں ‘ ہم ان کا پول کھول کر رکھ دیں گے۔ ہم کہتے ہیں : [صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں گروہ بندی کا شیعی افسانہ اور اس پر رد]: [اشکال]:پہلی بات: رافضی نے جو کہا ہے:’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مصیبت عام ہوگئی اور لوگ اختلاف کا شکار ہو گئے ؛ان کی خواہشات نفس کے مطابق ان کے فرقے بھی متعدد ہوگئے۔اہل سنت میں سے بعض لوگ بلا استحقاق امارت و خلافت کے طلب گار تھے۔ اور اکثر لوگ محض دنیا طلبی کے نقطہ خیال سے ان کے پیرو بن گئے تھے، مثلاً عمر بن سعد بن مالک[جوکہ کچھ عرصہ کے لیے بلاد رے کا حاکم رہ چکا تھا]؛ کو جب یہ اختیار دیا گیا کہ اگر چاہے تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہو اور اگر چاہے توجنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لے؛ تو اس نے لڑنا پسند کیا۔ حالانکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل جہنمی ہیں ۔‘‘ پھر اس کے لیے اس نے شعر ذکر کیے ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]: ہم کہتے ہیں : اس پیرائے میں اتنے جھوٹ اور باطل باتیں اورامت کے بہترین لوگوں کی مذمت ہے جو کسی بھی عقلمند پر پوشیدہ نہیں ۔ اس [کلام کے جھوٹ ہونے]کی کئی وجوہات ہیں : شیعہ کا کہناکہ’’ان کی خواہشات نفس کے مطابق ان کے فرقے بھی متعدد ہوگئے۔‘‘ توان میں سے ہر ایک اپنی خواہشات کا پیروکار ہوگیا۔ان میں کوئی ایک بھی حق کا طلبگار نہ تھا۔ او رنہ ہی کو ئی ایک اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت میں کامیابی چاہتا تھا۔ اورنہ ہی کسی کی بات اجتہاد و استدلال پر مبنی تھی۔ ان الفاظ کا عموم حضرت علی رضی اللہ عنہ او ردوسرے صحابہ کرام کو شامل ہے۔ یہ گل افشانی انہی صحابہ کے بارے میں کی جا رہی ہے جن کی تعریف و توصیف اللہ اور اس کے رسول نے کی ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے جنت کی خوشخبری دی تھی۔ جن کی شان میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (توبۃ۱۰۰) ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں ؛اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘