کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 408
[یہ حقیقت ہے کہ ]امت محمدی خیر الامم ہے۔ اور اس کے بہترین لوگ پہلی صدی کے لوگ ہیں ۔ پہلی صدی کے لوگ علم نافع اور عمل صالح کے اعتبار سے اکمل ترین لوگ تھے۔ جب کہ یہ [رافضی] جھوٹے انہیں اس کے برعکس صفات سے موصوف کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ ہی حق بات جانتے تھے اور نہ ہی اس کی پیروی کرتے تھے۔ بلکہ ان کے نزدیک اکثر صحابہ حق بات جانتے ہوئے بھی اس کی مخالفت کرتے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم ؛ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم ؛ اور باقی امت میں سے بہت سارے لوگ حق بات نہیں جانتے تھے۔بلکہ وہ اپنی جہالت اور غور وفکر نہ کرنے کی بنا پر ظالمین کی پیروی کرتے تھے۔ جو انسان غور و فکر نہیں کرتا اس کا سبب کبھی خواہشات نفس کی پیروی اور دنیا طلبی ہوتی ہے۔ اور کبھی کوتاہ فہمی اورنقص ادراک کی وجہ سے۔ شیعہ کا دعوی ہے کہ : ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو حق کی بنیاد پر خلافت کے طلبگار تھے۔اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ بات ہمیں اضطراری طورپر معلوم ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ان کے اس قول کی روشنی میں لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ساری کی ساری امت گمراہ ہوچکی ہو‘اور ان میں سے کوئی ایک بھی ہدایت یافتہ نہ ہو۔ توپھر یہودو نصاری نسخ و تبدیل کے بعد بھی ان سے بہتر ٹھہرے۔ اس لیے کہ ان میں ایسے لوگ تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ﴾ [الأعراف ۱۵۹] ’’اور قوم موسی میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتی ہے ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی تھی کہ: ’’ یہودی اورعیسائی ستر سے زیادہ فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ [اوریہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی]؛ ان میں سے ایک فرقہ جنتی ہوگا۔‘‘ [1] شیعہ کے قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعداس امت کا کوئی بھی گروہ عدل و انصاف اور حق پر قائم نہیں رہا ۔ جب خیر القرون میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے ‘ تو بعد کے ادوار میں بالاولی نہیں ہوں گے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ یہودونصاری نسخ اور تبدیلی واقع ہونے کے بعد بھی اس بہترین امت سے بہتر ہوں جنہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے نکالا گیا ہے ۔ یہ ان کے اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے جو کچھ شیعہ کہتے ہیں ۔ اگر یہ حکایت
[1] سننِ أبِی داود 4؍276 ؛ کتاب السنۃِ، باب شرحِ السنۃِ؛ سننِ التِرمِذِیِ 4؍134 ؛ کتاب الإِیمانِ باب افتِراقِ ہذِہِ الأمۃِ ؛ سنن ابن ماجہ 2؍1321؛ کتاب الفتن باب افتِراقِ الأمۃِ : وقال المحقِق: وإِسنادہ صحِیح 3؍120 ۔