کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 407
جاننے والا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَّرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوْہَامَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ اِِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ﴾ [الحدید] ’’ ہاں رہبانیت (ترک دنیا)تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا مگر اللہ کی رضا جوئی کے۔سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔‘‘ یہ موضوع کئی ایک مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گمراہی و سرکشی سے مبرا ومنزہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد فرمایا: ﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰی oمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی oوَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ﴾ [النجم۱۔۳] ’’قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے ! کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔‘‘ گمراہ وہ ہوتا ہے جو حق کو نہ پہچانتا ہو۔اور غاوی وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَاذْکُرْ عِبَادَنَا اِبْرَاہِیْمَ وَاِِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ اُوْلِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ ﴾ [ص ۴۵] ’’ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے۔‘‘ یہاں پر ہاتھوں سے مراداللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قوت ہے‘اور ابصار سے مراد دین میں بصیرت ہے ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَالْعَصْرِ oاِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ [العصر] ’’زمانے کی قسم! بے شک انسان یقینی گھاٹے میں ہے۔ مگر وہ لوگ نہیں جو ایمان لائے اورنیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔‘‘ پس اتباع ِ صراط ِمستقیم کے لیے حق بات کا علم ہونا اوراس پر عمل کرنا ضروری تھا۔ یہ دونوں چیزیں واجب ہیں ۔ کوئی بھی انسان ان دو امور کے بجا لائے کے بغیر کامیاب اورنجات پانے والے نہیں ہوسکتا ۔