کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 40
اور مدت استبراء گزارنے کے لیے روکے رکھا یہاں تک کہ جعفر اور بنی طالب کے نقباء پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ امام حسن عسکری بے اولاد تھے۔ ان تاریخی حقائق کے باوجود شیعہ یہ رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ امام حسن عسکری کا ایک لڑکا تھا اور آج سے گیارہ صدیاں پہلے وہ اپنے والد کے گھر کے تہ خانہ میں چھپ گیا تھا، بقول شیعہ وہ تاحال بقید حیات اور مسلمانوں کا شرعی حاکم ہے، شیعہ کی رائے میں ان کے سوا کرۂ ارضی پر جو مسلمان حاکم ہے وہ ظالم و غاصب ہے اور ناحق مسلمانوں پر حکومت و سلطنت کا دعویٰ کرتا ہے، شیعہ اس سے تجاوز کر کے یہاں تک کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جتنے مسلم حاکم یا امام یا خلیفہ قرار پائے وہ ظالم و غاصب اور غیر شرعی حاکم تھے، شیعہ کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ان کا بارہواں بن باپ و بن اولاد امام کسی نہ کسی وقت ظہور پذیر ہوگا، اس کے زمانہ میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر مسلم خلفاء و حکام دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، امام مذکور ان پر حکمرانی کرے گا، اور جس ظلم و غصب کا ارتکاب وہ کر چکے ہیں ۔ (نعوذ باﷲ من ذلک) اس کی سزا دے گا۔ قرآن کی جمع و تدوین اور صحابہ کرام: دین اسلام اور شیعہ مذہب کے مابین ایک اساسی فرق اور ہے، اہل اسلام کے ہاتھوں میں جو قرآن صدیوں سے چلا آرہا ہے اس کی جمع و تدوین کا بیڑا ابوبکر، عمر، عثمان اور دیگر اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم نے اٹھایا، مزید برآں جن احادیث نبویہ پر تشریع اسلامی کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ بھی صحابہ کی روایت کردہ ہیں ، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان خدمات جلیلہ کے ادا کرنے میں حضرات صحابہ کے رفیق کار تھے، حضرت ابو بکرو عمر و عثمان و علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ کمال صدق اور استقامت علی الحق کے اعتبار سے وہ ایک مثالی گروہ تھا جس کی نظیر دنیائے انسانیت میں تلاش نہیں کی جاسکتی ، چنانچہ آپ کتاب ھذٰا کی آخری فصل میں اس کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں گے۔ ہم قبل ازیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صحیح بیان کر چکے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے: ’’تمام زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر وہ جو ان کے قریب ہیں ، پھر جو ان کے قریب ہیں ۔‘‘ [1] یہ حقیقت ہے کہ ہم نے قرآن صحابہ سے سیکھا وہ صحابہ ہی تھے جنھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ روایت کیں جن پر بیان شریعت کے ضمن میں ہمارا اعتماد ہے۔ جب مذکورہ حدیث کی روشنی میں صحابہ افضل الامت ہیں ۔[2]
[1] صحیح البخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشھد علی شہادۃ جور۔ (ح: ۲۶۵۱۔ ۲۶۵۲) مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، (ح:۲۵۳۳،۲۵۳۵) [2] مسند احمد(۱؍۱۰۶) سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب (حدیث:۱۰۶)