کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 399
اہل قبلہ میں سے متأولین کا حال ہے؛ تو اس موقع پر کوئی تاوان؍ ضمانت نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پر اس مقتول کی دیت یا تاوان نہیں ڈالا تھا جسے انہوں نے تاویل کی بنا پر قتل کردیا تھا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: (( أقتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ؟ أقتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ؟ أقتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ؟۔))[1] یہی وجہ ہے کہ حدود صرف ان لوگوں پر قائم ہوتی ہیں جنہیں حرمت کا علم ہو۔ دوسری خیر اس وقت حاصل ہوئی جب حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہماکے مابین صلح ہوئی؛اور لوگوں کے مابین اجتماع ہوگیا۔لیکن اس اجتما میں پرا گندگی تھی دلوں میں وہی کدورت پر مشتمل احساس باقی تھا ۔ اور دلوں میں باقی یہ میل ویسے ہی تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پشین گوئی کی تھی؛ ویسا ہی پیش بھی آیا۔ یہ حدیث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہماکی خلافت کے زمانہ میں فتنہ پیدا ہونے سے پہلے بیان کی تھی۔ اورجب آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے کی اطلاع ملی تو آپ کو یقین ہوگیا کہ وہ فتنہ آ پہنچا ہے۔ اس کے چالیس دن بعد لڑائی شروع ہونے سے پہلے آپ کا انتقال ہوگیا۔ یہ ویسے ہی تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں خبر دی تھی کہ : اس کے بعد ایسے حکمران آئیں گے؛ جو میری راہ پر نہیں چلیں گے؛ اور میری سنت کی اتباع نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان میں ایسے حاکم ہوں گے جن کے دل انسانی جسموں میں شیاطین کے دل ہوں گے۔ اور پھر آپ نے امیر کی اطاعت گزاری اور بات سننے اور ماننے کا حکم دیا؛ اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوئے مارے بھی اور مال بھی چھین لے۔ تو اس سے ظاہر ہوا کہ جس امام کی اطاعت کی جائے گی ؛ اس سے مراد وہ حاکم ہے جسے سلطان اور غلبہ حاصل ہو۔ خواہ وہ عادل ہو یا ظالم ۔ اور ایسے ہی صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من خلع یدا مِن طاعۃِ إِمامٍ لقِی اللہ یوم القِیامۃِ لا حجۃ لہ، ومن مات ولیس فِی عنقِہِ بیعۃ مات مِیتۃ جاہِلِیۃ، لکِنہ لا یطاع أحد فِی معصِیۃِ اللہِ۔))[سبق تخریجہ] ’’جس کسی نے امام کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ بروز قیامت اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے لیے کوئی حجت نہیں ہوگی۔ اور جو کوئی اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مریگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔‘‘
[1] مسلِم 1؍96 کتاب الإِیمانِ، باب تحرِیمِ قتلِ الکافِرِ بعد أن قال لا إِلہ ِإلا اللّٰہ . وہو فِی سننِ أبِی داود 3؍61 کتاب الجہاد، باب علی ما یقاتِل المشرِکون۔