کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 398
پالوں تو پھر کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’امیر کی بات سنو اور مانو؛بھلے وہ تمہاری پیٹھ ٹھونکے اور تمہارا مال ناحق چھین لے؛ مگرتم بات سنو اور اطاعت گزاری کرو۔‘‘ [1]
اس کی تفسیر اور وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے؛ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟
فرمایا : دلوں کے فساد پر بظاہر صلح ہوگی۔ اور اس میں اور ان میں ایک جماعت گندگی پر ہوگی [دلوں میں کدورت و نفرت ہوگی‘‘]۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دلوں میں فساد پر ظاہر میں صلح کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا کہ : ’’قوم کے قلوب اس حالت سے واپس نہ پھریں گے جس پر وہ پہلے تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ فرمایا کہ:’’ ایک اندھا، بہرا فتنہ ہوگا کہ اس میں آگ کے دروازہ پر بلانے والے لوگ ہوں گے پس اے حذیفہ اگر تو جنگل میں جڑیں کھا کر مرجائے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے کہ اس سے کہ تو ان میں سے کسی کی پیروی کرے [کیونکہ سب ہی غلط ہوں گے]۔‘‘ [2]
پس پہلی خیر و بھلائی نبوت اور خلافت نبوت تھی جس میں کوئی فتنہ نہیں تھا۔ خرابی اور برائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پیدا ہوئی۔ جب لوگ آپس میں متفرق ہوگئے۔اور ان کا حال جاہلیت کے حال سے مشابہ ہوگیا جس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔
یہی وجہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’جب یہ فتنہ بپا ہوا؛ اس وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛و رضی اللہ عنہم وافر تعداد میں تھے۔ پس ان کا اس بات پر اجماع ہوا کہ جو بھی خون یا مال یا شرمگاہ تاویل قرآن کی وجہ سے پامال ہو؛ وہ رائیگاں ہے۔ اور وہ اسے جاہلیت کی منزلت پر شمار کرتے تھے۔
پس یہ واضح ہوگیا کہ وہ اس قسم کے خون کو ناقابل ضمانت سمجھتے تھے۔جیساکہ اہل جاہلیت جو ایک دوسرے کا خون خرابہ کرتے تھے اس کی کوئی ضمانت یا تاوان [دیت ] نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کہ تاوان؍ضمانت اس وقت ہوتی ہے جب اس کی حرمت کا علم ہو۔ ہاں جب حرمت کے حکم سے جہالت ہو؛ جیسا کہ کفار اور مرتدین اور
[1] صحیح مسلم 3؍1475 ، وفِیہِ: ویہدون بِغیرِ ہدیِی ؛ وفِی شرحِ النووِی12؍236: یہتدون ، و الحدِیث أیضا فِی البخاری 4؍199 ؛ کتاب المناقِبِ، باب علاماتِ النبوۃِ فِی الإِسلامِ،9؍51 ؛ کتاب الفِتنِ؛ سنن ابن ماجہ 2؍1317؛ ِکتاب الفِتنِ، باب العزلۃِ۔
[2] یہ حدیث سنن ابو داؤد میں ان الفاظ میں ہے: ’’.... حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی فتنہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ’’ اے حذیفہ کتاب اللہ میں جو کچھ ہے؛ اسے معلوم کر اور اس کی اتباع کر تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ میں نے عرض کیا:’’ کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ سنن ابوداد:جلد سوم:حدیث نمبر 854۔