کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 396
موت مرا۔‘‘ [1]
اورروایت کے یہ الفاظ ہیں :’’بیشک جو کوئی جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوا اور پھر اسی پر اس کی موت آگئی تو جاہلیت کی موت میں مرا۔‘‘
پس صاحب ِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم کے خلاف خروج اورمسلمان کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کو حرام ٹھہرایا ہے ۔ اور حاکم میں برائیاں دیکھ کر ان پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ حکم کسی متعین حاکم ؛ متعین امیر یا جماعت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت کی بنا پر غصہ کرتے ہوئے ؛اورعصبیت کی طرف بلایا؛ یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا ؛تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ [2]
پس اس حدیث مبارک میں اطاعت گزاری سے خروج اور جماعت سے علیحدگی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اور اسے جاہلیت کی موت قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اہل جاہلیت کا کوئی بڑا سربراہ نہیں ہوا کرتا تھا جو انہیں باہم جمع کرسکے۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ کسی نہ کسی کو سربراہ بنالینے کا حکم دیا کرتے تھے۔ حتی کہ آپ
[1] صحیح بخاری، کتاب الفتن ۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ ’’ سترون بعدی امور تنکرونھا( ح:۷۰۵۴)۔ صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(ح:۱۸۴۹)
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو اطاعت سے نکلا اور پھر جماعت کو چھوڑ کر مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے، اور جو طرف داری اور تعصب کی خاطر لڑتا ہوا مارا جائے تو وہ میری امت میں سے نہیں ۔‘‘ صحیح مسلم۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح: ۱۸۴۸)۔ایک روایت میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کو ملے گا اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی (خلیفہ و امام) کی بیعت کا جواز نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ صحیح مسلم (ح: ۱۸۵۱) نیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اﷲ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت روا نہیں ، اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘بخاری(ح: ۷۲۵۷)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’امیر وخلیفہ کی بات سننا اور اس پر عمل پیرا ہونا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے، خواہ وہ بات اسے پسند ہو یانا پسند ، البتہ اگر اسے اﷲ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھرسننا ضروری ہے، نہ اطاعت کرنا۔‘‘ بخاری (حدیث:۲۹۵۵)
[2] مسلِم 3؍1476 ؛ کتاب الإِمارۃِ، باب وجوبِ ملازمۃِ جماعۃِ المسلِمِین.... ؛ سننِ النسائِیِ 7؍122 کِتاب تحرِیمِ الدمِ، باب التغلِیظِ فِیمن قاتل تحت رایۃ عِمِیۃ ؛ المسندط. المعارِفِ) 15؍87 ۔ ؛ وجاء الحدِیث مختصرا فِی سنن ابن ماجہ 2؍1302 (کتاب الفِتنِ، باب العصبِیۃ۔