کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 395
اگر کسی عورت کو دو آدمی نکاح کا پیغام بھیجیں ؛ ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے افضل ہو۔ لیکن وہ عورت اس کو نا پسند کرتی ہو؛ اگر وہ اس آدمی سے شادی کربھی لے تو اس کی بات نہ مانے ۔ بلکہ اس سے جھگڑا کرتی رہے اورتکلیف دیتی رہے ۔ نہ ہی یہ عورت اس مرد سے کوئی فائدہ حاصل کرسکے اورنہ ہی وہ مرد اس عورت سے کوئی فائدہ حاصل کرسکے۔ جب کہ دوسرے آدمی سے یہ عورت محبت کرتی ہے ‘ وہ اس سے محبت کرتا ہے ؛ اور اگر ان کی آپس میں شادی ہوجائے تو اس سے مقاصد نکاح پورے ہوسکیں ۔تو پھر کیا باتفاق اہل عقل و دانش اس مفضول آدمی سے شادی کرنا زیادہ بہتر نہیں ہے ؟ جو آدمی اس دوسرے سے شادی کا کہے ‘ وہ اس سے زیادہ بہتر ہے جو پہلے آدمی سے شادی کا کہہ رہا ہے ۔ توپھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ایسی بات کیوں منسوب کی جاتی ہے جس پر کسی ظالم وجاہل کے علاوہ کوئی بھی انسان راضی نہیں رہ سکتا ؟ یہ ایسے امور ہیں جن کا باطل ہونا معلوم ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ [خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے] افضل تھے؛ اورآپ امارت کے زیادہ حق دار تھے۔مگر آپ کی ولایت سے وہی کچھ حاصل ہوسکتا تھا ؛ جو کہ حاصل ہوا۔ آپ کے علاوہ دوسرے لوگ ظالم تھے ؛ مگر ان سے مصلحتیں اورفوائد حاصل ہوئے ۔ اگر ایسے نہ ہوتا تو معاملہ بالکل الٹ ہوتا ۔ نہ ہی مصلحت حاصل ہوتی ؛ نہ ہی لوگ اطاعت کرتے ۔ اس مسٔلہ میں اہل سنت و الجماعت کا مذہب سچی خبر اور دانشمندانہ قول ہے۔جب کہ رافضیوں کا مذہب جھوٹی خبر اور احمقوں کا قول ہے ۔ اہل سنت والجماعت اس امیر یا حاکم یاخلیفہ کو مانتے ہیں جو شان و شوکت اور قوت والا ہو؛ اوروہ مقصود ولایت مصلحتیں پوری کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ جیسا کہ نماز کا امام وہی ہوسکتا ہے جو لوگوں کو نماز پڑھائے ؛ اورلوگ اس کی اقتداء کریں ۔ وہ انسان ہرگز امام کا مستحق نہیں ہوسکتا جو امام بنا پھرے اور لوگوں کو کبھی ایک نماز بھی نہ پڑھائے۔ لیکن اسے امام ہونا چاہیے تھا۔ حقیقی امام میں اور جسے امام ہونا چاہیے ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے ؛ وہ کسی بھی اہل خرد و دانش پر مخفی نہیں ہے۔ [شیعہ ] کہتے ہیں : ’’ بیشک یہ امام نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرتا ہے برائی اور گناہ کے کاموں پر نہیں ۔پس اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے گی ‘ نافرمانی اور گناہوں کے کاموں میں نہیں ۔ اور اس کے خلاف شمشیر بکف ہوکر خروج نہیں کیا جائے گا۔ احادیث نبویہ اسی پر دلالت کرتی ہیں ۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے امیر سے کوئی بری حرکت صادر ہوتی دیکھے تو صبر سے کام لے اس لیے کہ جو شخص اطاعت سلطان سے ایک بالشت بھر باہر نکلا اور پھر اسی پر اس کی موت واقع ہوگئی تو وہ جاہلیت کی