کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 394
امت کو کوئی خیر حاصل نہیں ہوگی؛ او رنہ ہی اس سے وہ مقصود ِ امامت و ولایت امور حاصل ہوں گے جو اس کے علاوہ دوسرے ائمہ سے حاصل ہوجائیں گے ؛ توپھر اس وقت منصوص علیہ امام کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو امام بنانا واجب ہوجاتا ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ولی امر [حاکم ] کے پاس دو افراد تھے ؛ اور وہ جانتا تھا کہ اگر ان میں سے ایک کو عامل بنادیا جائے تو لوگ اس کی بات مانیں گے اور اطاعت کریں گے ؛ اور اس کے ہاتھوں پر علاقے فتح ہوں گے؛ وہ جہاد کو قائم کرے گا اوردشمن کو زیر کریگا۔اور اگر دوسرے کو عامل بنائے گا تو لوگ اس کی اطاعت نہیں کریں گے ؛ اور نہ ہی وہ کوئی علاقہ فتح کرسکے گا؛ بلکہ اس کے دور میں رعیت میں فتنہ و فساد برپا ہوگا۔ تو پھر ہر عاقل جانتا ہے کہ اس صورت میں لازم ہوگا کہ اس آدمی کو ولایت عطا کی جائے جس کے ہاتھوں خیرو بھلائی حاصل ہو۔ نہ کہ اس آدمی کو اختیار دیے جائیں جس سے کوئی بھلائی و خیر حاصل نہ ہو۔ بلکہ اس کی وجہ سے رعیت ہی فساد کا شکار ہوجائے۔ تو پھر جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تینوں خلفاء کے بارے میں جانتے تھے کہ ان کے ذریعہ سے امت کے لیے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ اور ان سے کیاکچھ امت کو مصلحتیں دین ودنیا میں حاصل ہوں گی؛ پھر ان کی امامت کے بارے میں کو ئی نص و صراحت موجود نہ ہو؛ اور ایسے امام کی امامت پر نص موجود ہو جس کی نہ ہی اطاعت کی جائے اورنہ ہی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہو ۔بلکہ اس کے دور میں قتل و غارت گری ہو؛ نہ ہی وہ دشمن پر قابو پا سکتا ہواورنہ ہی اپنے ماننے والوں کی اصلاح کرنے پر قادر ہو۔ توکیا خواہ کوئی کتنا بڑا ظالم اور فسادی ہی کیوں نہ ہو ؛کسی جاہل کے علاوہ کوئی بھی ایسے انسان کو عامل بنا سکتا ہے ؟ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جہالت اور ظلم سے بری ہیں ۔ جب کہ شیعہ اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوگوں کی مصلحت اور راہ ِ حق سے کجی اختیار کرنے کو منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے وہ راہ اختیار کی جس میں فساد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ اگر شیعہ کہیں کہ :’’ یہ فساد لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے پیدا ہوا نہ کہ امام کی کوتاہی کی وجہ سے۔‘‘ توان سے کہا جائے گا کہ: کیا ایسے انسان کی ولایت میں مصلحت نہیں ہے لوگ جس کی اطاعت کرتے ہوں ‘اوریہ اس کی نسبت بہتر نہیں ہے لوگ جس کی نافرمانی کریں اور مصلحت حاصل نہ ہو؟ بلکہ فساد ہی پیدا ہو۔ اگر کسی انسان کا بیٹا ہو؛ اوراس کے لیے ادب سکھانے والے دو اتالیق ہوں ؛ جب اس بچے کو ان دو میں سے ایک اتالیق کے سپرد کیا جائے تو وہ علم و ادب سیکھے۔ اور جب دوسرے کے پاس بھیجا جائے تو بچہ بھاگ جائے ‘ [اوراس سے کچھ بھی نہ سیکھے ] تو کیا پھر اس بچے کو پہلے اتالیق کے سپرد کرنا زیادہ بہتر اور مناسب نہیں ؟ اگر یہ کہیں کہ : دوسرا اتالیق افضل ہے ۔ تو ہم پوچھتے ہیں جب بچے کے اس سے بھاگ جانے کی وجہ سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکتا ہو تو پھر اس کے افضل ہونے کا کیا فائدہ [اور کونسی وجہ فضیلت ہے ]؟