کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 393
انہیں کفار کی کرنا پڑی ؛ او رخود ان سے مدد حاصل کرناپڑی ۔ یہ لوگ تو امام معصوم کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے ہیں ؛ مگر ان کا کوئی امام موجود نہیں ہے جس کی اطاعت کریں سوائے کافروں اور ظالموں کے ۔ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو لوگوں کو اولیاء اللہ کی غیبی مدد کے حیلے دیتا ہے۔ مگر اسکے پاس سوائے جھوٹ و مکر کے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اورنہ ہی اس کے پاس کوئی غیبی انسان ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔ یا پھر اس کے ساتھ کوئی شیطان یا جنات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے اسے بعض شیطانی احوال حاصل ہوتے ہیں ۔[جن سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں ]
اگر بالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ جس نص کا دعوی رافضی کرتے ہیں ‘ وہ حق اور موجود ہے ؛ اور لوگوں نے منصوص علیہ امام کو مقرر نہیں کیا ؛ تو اس وجہ سے وہ ترک واجب کے مرتکب ہوئے ؛ اور کسی دوسرے کو والی تسلیم کرلیا ۔ تب بھی جس امام سے مقصود امامت حاصل ہوسکتے ہیں وہ وہی امام ہے جسے والی مقرر کیا جاچکا ہے۔نہ کہ وہ مغلوب و مقہور امام جو کہ عاجز ہے۔مان لیا کہ وہ حاکم و والی متعین کیے جانے کا مستحق تھا ؛ مگر اسے والی نہیں بنایا گیا۔تو گناہ اس پر ہوگا جس نے اس کا حق مارا ہے ؛ اورراہ حق کو ترک کیا ہے ۔ ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا جنہوں نے نہ ہی کسی کا کوئی حق مارا اور نہ ہی کسی پر کوئی ظلم کیا ۔
شیعہ کہتے ہیں : ’’ امام [حاکم ] مقرر کیا جانا واجب ہے ؛ پس یہی مہربانی ہے اور اس میں بندوں کے لیے مصلحت ہے ۔‘‘
جواب : جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ جس متعین شخص کی ولایت کا حکم دیا جائے گا ؛ لوگ اسے متعین نہیں کریں گے۔تو پھر اس کو والی مقرر کرنے کا حکم دینا جسے لوگ اپنا والی و حاکم مقرر کریں گے‘ اور اس سے فائدہ اٹھائیں گے ‘ زیادہ بہتر تھا کہ اس کا حکم دیا جاتا؛ نہ کہ اس آدمی کا حکم صادر ہوتا جسے انہوں نے اپنا حاکم تسلیم ہی نہ کرنا تھااور نہ ہی اس کی ولایت سے کوئی فائدہ حاصل ہونا تھا۔ جیسا کہ نماز کی امامت اور[ لوگوں کے درمیان فیصلہ کے لیے] جرگہ دارکا کہا جاتا ہے ۔ توپھر اس نص کا کیا عالم ہوگا جس کے بارے میں رافضی دعوی کرتے ہیں ؛ کیا یہ سب سے بڑا جھوٹ اور افتراء نہیں ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مستقبل میں پیش آنے والے امور[تفرقہ بازی ] کے متعلق خبر دی تھی۔ اور اپنے بعد واقع ہونے والے تفرقہ سے آگاہ کیا تھا۔ توپھراگر آپ صراحت کے ساتھ ایسے شخص کو امام بنانے کا حکم بھی دیتے جس کے بارے میں آپ کو علم ہوتا کہ لوگ اسے اپناامام نہیں بنائیں گے؛ بلکہ اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا امام بنائیں گے ۔ جس سے مقصود ِ امامت و ولایت حاصل ہوسکے۔ اور یہ کہ جب معاملہ اس منصوص علیہ امام تک پہنچے گا تو قتل و غارت گری ہوگی ؛ اور لوگوں کا خونِ ناحق بہایا جائے گا؛ اور اس منصوص علیہ امام سے