کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 391
حاکم وقت کی اطاعت سے حاصل ہوگا ‘ جیسے دشمنان سے جہاد؛ مستحق افراد کو ان کے حقوق کی ادائیگی۔حدود کا قیام وغیرہ ۔ اگر کوئی کہنے والا یہ بات کہے کہ : ان میں سے کوئی ایک یا پھر کوئی دوسرا امام ہے ‘ جسے قدرت و شوکت اور اختیار حاصل ہے ؛ جس سے امامت کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں ؛ تو یہ ایک کھلی ہوئی باطل اوربلاحجت بات ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی دوسرا حاکم ایسا نہ ہوتا جو ان سے ٹکرا سکتا۔ اور نہ ہی ان کے برعکس وہ اپنا حکم چلاتا ۔ ایسا تو کوئی ایک بھی نہیں کہتا؍[اورنہ کہہ سکتاہے ]۔ [اشکال]: اگر یہ کہا جائے : ’’ان میں سے کسی ایک کے امام ہونے سے مراد یہ ہے کہ انہیں حاکم بنانا واجب تھا۔ اور لوگوں نے ان کو امام نہ بنا کر اور ان کی اطاعت ترک کرکے گناہ اور نافرمانی کی۔‘‘ [ازالہ] : یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کے متعلق کہا جائے کہ فلاں انسان اس کا مستحق تھا کہ اسے قاضی بنایاجائے مگر ظلم و زیادتی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا جاسکا۔ مسئلہ امامت میں اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کی تفصیل: یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بات میں کوئی جھگڑا نہیں کرتے کہ خلفاء اربعہ کے بعد کے حکمران بعض ایسے لوگوں کو والی بنادیتے تھے جن کی نسبت دوسرے افراد اس کے زیادہ حقدار ہوا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ چاہتے تھے کہ اپنے بعد قاسم بن محمد کو خلیفہ بنائیں ؛ مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔اس لیے کہ اہل شوکت وقوت اس بات پر آپ کے ساتھ موافقت نہ کرتے تھے۔ اس لیے کہ آپ کے ساتھ ہی یزید بن عبد الملک کے لیے بھی عہد لیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے وہ ولی عہد تھا۔ پس اس صورت میں جب اہل شوکت کسی مرجوح کو مقدم کیا ‘ اور راجح کو چھوڑ دیا ۔اور ایسے ہی جو شخص اپنی اور اپنے ماننے والوں کی قوت کے بل بوتے پر ظلم و زیادتی سے اقتدار حاصل کرلے ؛ تو اس کا گناہ اس پرہوگا جس نے واجب ترک کیا ہے؛ حالانکہ وہ اس واجب کو پورا کرنے پر قادر تھا۔ یا پھر اس نے ظلم پر مدد کی [اس وجہ سے بھی گنہگار ہوا]۔ اس کے برعکس جو انسان نہ ہی خود ظلم کرے ‘ اور نہ ہی ظلم پر کسی دوسرے کی مدد کرے ؛ بلکہ وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کرے ؛ تو اس پر کچھ بھی گناہ نہ ہوگا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نیکوکار مؤمنین صرف نیکی اور بھلائی کے کاموں پر حکمرانوں کی مدد کرتے ہیں ۔ظلم و سرکشی کے کاموں میں ان کی مدد نہیں کرتے ۔ پس یہ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ امام جسے شرعی طور پر مقدم کرنا واجب ہوتا ہے ؛ اسے قرآن کا بڑا قاری ؛ سنت کا بڑاعالم ؛ ہجرت میں مقدم ؛ عمر میں بڑا ہونا چاہیے۔ مگر ایسا صاحب شوکت وقوت آگے بڑھ جائے جو باقی امور میں اس ماقبل الذکر انسان سے بہت کم ہو‘ اور نمازیوں کے لیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو ؛ تو اس