کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 390
’’ظالم حاکم کے ساتھ ساٹھ سال گزارنا بغیر حاکم کے ایک رات گزارنے سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’ امارت ناگزیر ہے خواہ نیک ہو یا بد۔‘‘ لوگوں نے دریافت کیا، نیک امارت تو ہمیں معلوم ہے، امارت فاجرہ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ تو آپ نے جواباً فرمایا: ’’ جس سے راستے محفوظ رہیں ، شرعی حدود کا قیام عمل میں آئے۔دشمنان دین سے جہاد کیا جائے، اور مال غنیمت کو تقسیم کیا جائے۔‘‘
شیعہ عالم علی بن معبد [1]نے اپنی تصنیف کتاب الطاعۃ و المعصیۃ میں یہ روایت ذکر کی ہے۔
جو کوئی بھی حاکم بنا ہو؛ وہ رافضہ کے اس امام معدوم سے تو بہر حال بہتر ہے۔اس لیے کہ اس امام منتظر سے حقیقت میں کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہیں ہوسکی۔ اور نہ ہی اس کی امامت کا کوئی فائدہ ہے سوائے فاسد اعتقادات اور جھوٹی تمناؤں کے۔[اس امامت کے درپردہ ] مسلمانوں میں جو فتنہ و فساد بپا کیا جارہا ہے ؛ اور ایسے شخص کا انتظار ہورہا ہے جس نے کبھی بھی نہیں آنا؛ عمریں ختم ہوگئیں مگر اس امام سے کسی [بھی اپنے یا غیر ]کوکوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔
لوگوں کے لیے چند دن بھی حاکم کے بغیر رہنا ممکن نہیں ۔کیونکہ افراتفری اور طائف الملوکی کے دور میں تمام امور فساد کا شکار ہوجاتے ہیں ۔توپھر لوگوں کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے جب وہ کسی امام کو جانتے ہی نہ ہوں سوائے غیر معروف امام کے۔جس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں کہ وہ [کہاں ہے] کیا کہتا ہے ؛ [کیا کرتا ہے ]۔اور اسے لوگوں کے معاملات میں کسی چیز کا کوئی اختیار بھی حاصل نہیں ۔بلکہ وہ امام ہی معدوم ہے۔
[[خلاصہ کلام (تاریخ کے مختلف ادوار میں ) جو خلفاء مسند خلافت و امارت پر جا گزین ہوئے وہ بہر کیف شیعہ کے امام منتظر سے بہتر ہی تھے، جس کے انتظار میں شیعہ صدیوں سے جھوٹی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مستثنیٰ قرار دیا جائے تو]] امام منتظر کے جملہ آباء و اجداد قوت و شوکت سے محروم، امامت سے قاصر اور امور مملکت سے بے بہرہ تھے۔[ نظر بریں ان سے کسی طرح امامت کا مقصد پورا نہیں ہوتا]۔بلکہ ان جیسے دوسرے لوگوں کو حدیث اور فتوی میں امامت کا درجہ حاصل تھا۔
انہیں کوئی شوکت و سلطنت حاصل نہ تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی امامت میں عاجز تھے؛ بھلے وہ اس امامت کے حقدار تھے یا نہیں تھے۔ بہر صورت میں انہیں نہ ہی اختیار حاصل ہوا اورنہ ہی انہیں حاکم بنایا گیا۔ اور اختیار و قدرت کے نہ ہونے کی وجہ سے ان سے وہ فوائد بھی حاصل نہ ہوسکے جو کہ مقصود ولایت و امارت ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی مؤمن ان کی اطاعت کربھی لے تو ان کی اطاعت سے اسے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا جو
[1] علی بن معبد ایک شیعہ عالم تھا اور بغداد میں سکونت پذیر تھا، المامقانی نے اپنی کتاب ’’تنقیح المقال : ۲؍ ۳۰۹ پر لکھا ہے کہ یہ امام حسن عسکری کے والد محمد کے بیٹے ہادی علی کے اتباع میں سے تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن معبد خلیفہ مامون و معتصم کا معاصر تھا۔‘‘