کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 388
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت خلافت راشدہ ہونے کی نص اس حدیث میں موجود ہے : ’’ میری بعد خلافت تیس سال تک ہوگی ۔‘‘ [اس کی تخریج گزر چکی ہے ]۔
اہل سنت والجماعت تو دوسرے خلفاء کی خلافت کے برحق ہونے کے بارے میں بھی بہت سی نصوص روایت کرتے ہیں ۔ محدثین کرام کے ہاں یہ معاملہ معلوم شدہ ہے ۔ وہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے برحق ہونے پر بہت ساری نصوص روایت کرتے ہیں ‘بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ۔ اس لیے کہ آپ کی خلافت کی نصوص بہت کم ہیں ۔پہلے تین خلفاء پر امت کا اتفاق تھا‘ جس سے مقصود امامت حاصل ہوگیا تھا۔ ان ادوار میں کفار کو قتل کیا گیا؛ شہروں کے شہر فتح ہوئے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نہ ہی کسی کافر کو قتل کیا گیا اور نہ ہی کوئی شہر فتح ہوا۔ بلکہ اہل قبلہ آپس میں لڑتے رہے ۔ جب کہ جن نصوص کا دعوی رافضی کرتے ہیں ‘ وہ بالکل راوندیہ کی نصوص جیسی ہے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے دعویدار ہیں ۔اہل علم کے ہاں ان دونوں باتوں کا فساد اور باطل ہونا معلوم شدہ ہے۔اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اثبات میں اس کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو اس سے ہر گز آپ کی خلافت و امامت ثابت نہ ہوتی۔ جیسا کہ اس جیسی دوسری دلیل سے حضرت عباس کی خلافت ثابت نہیں ہوسکتی ۔
[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت :]
[شبہ] : (شیعہ کہتے ہیں : ) اہل سنت کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے لخت جگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ قرار دیتے ہیں اور بعض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو۔‘‘
[جواب ]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ اہل سنت کے یہاں سرے سے اس ضمن میں کوئی اختلاف پایا ہی نہیں جاتا ۔ بلکہ اہل سنت اس امر میں یک زبان ہیں کہ اہل عراق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جگہ ان کے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔اور اہل شام پہلے سے ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیساتھ تھے۔[ پھر انہوں نے ایک معاہدہ کے تحت بخوشی منصب امارت و خلافت امیر معاویہ[1] رضی اللہ عنہ کو تفویض کر دیا]۔
[1] (العواصم من القواصم : ۱۹۷، ۱۹۸) کے حاشیہ پرمحب الدین خطیب نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:
’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ ان کے والد، ان کے بھائی اور ان کے بھائی کی اولاد میں سے ۹ افراد کی طہارت و عصمت کا عقیدہ شیعہ کے ایمان کا اولین عنصر ہے۔ عصمت ائمہ کے عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے خطا کا صدور نہیں ہوتا، اور ان کا ہر قول عمل حق و صواب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ بات محتاج تشریح نہیں کہ حق و صواب تناقض سے پاک ہوتا ہے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اہم ترین کارنامہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت ہے۔ جبکہ بقول شیعہ آپ کا یہ طرز عمل ایک امام معصوم کا فعل ہے۔ تو شیعہ کو اس بیعت میں شرکت کرنا اور اس کی صداقت و حقانیت پر ایمان لانا چاہیے تھا، مگر مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہیکہ وہ اس بیعت کے منکر ہیں اور اس ضمن میں اپنے امام معصوم کی مخالفت کا ارتکاب کرتے ہیں اسکے صرف دو اسباب ہیں: (