کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 386
دوسرے پر ظلم کر رہا ہو تو اس سے لڑو جو دوسرے پر ظلم کررہا ہو؛ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئے۔‘‘
متحارب فریقین میں صلح کی ضرورت و اہمیت:
مذکورہ بالا آیت میں پہلے صلح کا حکم دیا گیا ہے، اگر کوئی فریق ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو اس سے لڑا جائے، یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے سر تسلیم خم کر دے، بنا بریں فریقین کے لڑنے میں کوئی مصلحت نہیں پائی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جس بات کا اﷲ نے حکم دیا ہو اس کی مصلحت فساد کی نسبت راجح ہوگی۔ امام ابو داؤد نے اپنی کتاب ’’سنن ابی داؤد ‘‘ میں نقل کیا ہے ؛ فرماتے ہیں : ہم سے حسن بن علی نے حدیث بیان کی؛کہا:ہم سے یزید نے حدیث بیان کی؛ وہ کہتے ہیں :ہم ہشام نے بتایا وہ امام ابن سیرین رحمہ اللہ (مشہور تابعی) سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ جو شخص بھی فتنہ کی لپیٹ میں آجائے مجھے اس کے جادہ مستقیم سے بھٹک جانے کا خطرہ دامن گیر رہتا ہے، مگر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ:’’ فتنہ و فساد سے محمد بن مسلمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[1]
امام ابو داؤد کہتے ہیں : ہم سے عمرو بن مرزوق نے حدیث بیان کی؛ اس سے شعبہ نے؛ وہ اشعب بن سلیم سے روایت کرتے ہیں ؛ وہ ابو بردہ سے اور وہ ثعلبہ بن ضبیعہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا:’’ مجھے وہ شخص معلوم ہے جسے فتنہ پر دازی سے کوئی نقصان اور ضرر لاحق نہیں ہوتا، چنانچہ ہم باہر نکلے تو ایک خیمہ نصب کیا ہوا دیکھا جس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے۔ہم نے اس ضمن میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا میں نہیں چاہتا کہ بلاد و امصار جس فتنہ سے دو چار ہیں میں بھی اس کی لپیٹ میں آجاؤں یہاں تک کہ فتنہ کی آگ فرو ہوجائے۔‘‘[2]
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمادیا ہے کہ محمد بن مسلمہ کو کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جواس دور میں بالکل عزلت نشین تھے۔ آپ نے نہ ہی معاویہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی علی کا ؛ رضی اللہ عنہم ۔
اسی طرح سعد بن ابی وقاص، اسامہ بن زید، عبداﷲ بن عمر ، ابوبکرہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہم اوراکثر سابقین الاولین صحابہ کسی فریق کے ساتھ مل کر شریک جنگ نہیں ہوئے تھے۔ ان کا یہ طرز عمل اس حقیقت کا آئینہ دار
[1] الاصابۃ(۳؍۳۸۴) سنن ابی داؤد ۔ کتاب السنۃ۔ باب ما یدل علی ترک الکلام فی الفتنۃ(ح: ۴۶۶۳)
[2] مستدرک حاکم(۳؍۴۳۳)، طبقات ابن سعد(۳؍۴۴۴)