کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 385
تیسراقول: حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے ‘ اور ان کے مخالفین خطا کار تھے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ اہل سنت و الجماعت سے صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کی بھی مذمت بھی نہیں کی جائیگی۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں گروہوں میں سے حق کے زیادہ قریب تھے۔ جب کہ قتال کو درست کہنا اہل سنت و الجماعت کاعقیدہ نہیں ہے۔بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قتال کو ترک کرنا دونوں گروہوں کے لیے بہتر تھا۔ چوتھا گروہ:.... ان کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ امام برحق تھے اور ان کے خلاف لڑنے والے اگرچہ بنا بر اجتہاد ان کے خلاف برسر پیکار تھے، مگر ان کا اجتہاد مبنی برخطا تھا، بہت سے حنفیہ ، شافعیہ مالکیہ اور حنابلہ اسی نقطہ نظر کے حامل ہیں ۔ پانچواں گروہ:.... ان کا خیال ہے کہ اس دور میں خلیفہ برحق صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں حق و صداقت سے قریب تر تھے۔ تاہم ان دونوں کے لیے آپس میں نبرد آزما ہونا مناسب نہ تھا۔ بلکہ اس سے احتراز و اجتناب اختیار کرنا افضل تھا۔وہ اس کی دلیل میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پیش کرتے ہیں : ’’ ایک فتنہ برپا ہو گا اس میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے کی نسبت افضل ہوگا؛ اورکھڑا رہنے والا دوڑنے والے کی نسبت افضل ہوگا؛ ۔‘‘ [1] رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[2] اس حدیث میں آپ نے صلح کرانے کی بنا پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش فرمائی۔[3] اگر نبرد آزمائی واجب یا مستحب ہوتی تو آپ اس کے تارک کی مدح نہ فرماتے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے باغیوں کے خلاف ابتدائً جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ہر باغی کے خلاف قتل و قتال کو ضروری ٹھہرایا، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْریٰ فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ﴾ (الحجرات۹) ’’اگر مومنوں کی دو جماعتیں باہم برسر پیکار ہوں تو ان میں صلح کرا دیجئے اور اگر ایک گروہ
[1] صحیح بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام(حدیث:۳۶۰۱) صحیح مسلم: کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر، (حدیث:۲۸۸۶) [2] صحیح بخاری، حوالہ سابق(ح:۳۶۲۹) [3] :( دیکھئے العواصم من القواصم:۱۹۹)۔