کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 384
کا شکار ہوگئے تھے ۔
پہلا گروہ :.... اس امر کا قائل تھا کہ حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں خلیفہ برحق ہیں ۔اورجب ایک خلیفہ پر اتفاق نہ ہوسکے تو ایک وقت میں دو خلیفہ بنانے جائز ہیں ۔کرامیہ سے یہ قول نقل کیا گیا ہے۔
دوسرا گروہ:.... ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ وہ انار کی کا دور تھا، اور اس وقت کوئی بھی جائز خلیفہ نہ تھا بصرہ کے محدثین میں سے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔اسی لیے جب امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھا خلیفہ شمار کرنا شروع کیا تو توآپ کی عدم خلافت کے قائلین نے آپ کو گدھے سے بڑھ کرگمراہ و بدتر کہا۔ اور ایک گروہ نے چوتھے خلیفہ کی خلافت کا انکار کیا ۔ اور کہنے لگے اس سے پہلے ان لوگوں نے آپ کی خلافت کا انکار کیا ہے ‘ جو کہ ایسے نہیں تھے ؛ اس سے مراد بیعت سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کولیتے تھے۔ امام احمد بن حنبل اور دوسرے علماء رحمہم اللہ جو خلافت علی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے نے آپ کی خلافت پر حدیث سفینہ سے استدلال کیا؛ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
’’میرے بعد تیس سال خلافت ہو گی، پھر ملوکیت کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘ [1]
تیسرا گروہ:.... حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا قائل تھا۔اور جن لوگوں سے آپ نے قتال کیا ‘ اس قتال میں آپ حق پر تھے۔اور ان کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جن صحابہ کرام نے قتال کیا جیسے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ؛وہ غلط کار نہیں تھے، کیونکہ وہ اپنے اجتہاد کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بر خلاف نبرد آزما تھے، اور یہ مشہور مقولہ ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ: ’’ کُلُّ مُجْتَہِدٍ مُصِیْبٌ ‘‘
یہ اہل بصرہ میں سے ابو ہذیل علاف جبائی،ابو علی؛ ابو ہاشم بن جبائی اوران کے موافقین اشاعرہ جیسے قاضی ابو بکر ابن الباقلانی؛ امام ابی حامد رحمہم اللہ [2]کی یہی رائے ہے۔ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا ایک قول یہی ہے۔ ان کی رائے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس قتال میں ایسے ہی مجتہد تھے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ یہ فقہائے کرام کی ایک جماعت اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اصحاب کا قول ہے۔ابو عبد اللہ ابن حامد نے اصحاب امام احمد رحمہ اللہ سے جنگ جمل اور جنگ صفین کے بارے میں تین اقوال نقل کیے ہیں :
پہلا قول: ان میں سے ہر ایک راہ حق پر تھا۔
دوسرا قول: ان دو میں سے ایک گروہ حق پر تھا ‘مگر اس کا پتہ نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہے۔
[1] سنن ابی داؤد ۔ کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء(ح:۴۶۴۶) سنن ترمذی، باب فی الخلافۃ (ح:۲۲۲۶) ۔
[2] ابو بکر محمد بن طیب باقلانی المتوفی ۴۰۳ھ آپ ابو الحسن اشعری کے تلمیذ رشید تھے ، استاد کی وفات کے بعد معتزلہ کے خلاف صف آراء رہے، یہ بڑے وسیع العلم حاضر جواب اور کامیاب مناظر تھے، کثیر التصانیف تھے، ان کی اعجاز القرآن اور التمہید زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔