کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 383
مدینہ میں شر پسندوں کا بڑا زور تھا۔جب سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے مدینہ میں فتنہ پسندوں کا سیلاب موجیں مار رہا تھا۔ بکثرت صحابہ بیعت میں شریک نہ ہو سکے، مثلاً حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہمااور ان جیسے دوسرے لوگ۔
اس موقع پر لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے تھے : ایک گروہ جو آپ کے ساتھ تھا؛ دوسرا گروہ جو آپ سے بر سر پیکار تھا؛ اور تیسرا گروہ جو نہ آپ سے بر سر پیکار تھے اور نہ ہی آپ کے ساتھ تھے؛ [بلکہ عزلت نشین ہوگئے تھے]۔بایں ہمہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنا کہ کثیر مخلوقات نے ان کی بیعت کی۔ اور خلفاء سابقین کے بارے میں سکوت اختیار کرنا کہاں تک قرین عدل و انصاف ہے؟حالانکہ جب ان خلفاء کی بیعت ہوگئی تو کسی ایک نے بھی ان کے بارے میں اختلاف نہیں کیا ؛ خاص کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت ۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس لیے کہ انصار انہیں امیر مقرر کرنا چاہتے تھے۔ تو آپ کے دل میں بھی ایسے ہی ملال سا باقی رہاجیسے بشر کے دل میں باقی رہتا ہے ۔ مگر اس کے باوجود آپ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ او رنہ ہی حق بات کو رد کیا ۔ اورنہ ہی باطل پر کسی کی مدد کی۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ مسند صدیق میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :.... عبد الرحمن الحمیری سے حکایت سقیفہ مذکور ہے ۔اس میں ذکر کیا گیا ہے : ’’ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اے سعد ! آپ جانتے ہیں کہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا :
’’قریش اس امر کے والی ہیں ۔لوگوں کے نیک ان کے نیکو کاروں کے تابع اور بداوران کے بدکاروں کے تابع۔‘‘توحضرت سعد نے آپ سے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں : ’’ہم وزراء ہیں اور آپ لوگ امراء ہیں ۔‘‘ [1]
یہ حدیث مرسل حسن درجہ کی ہے۔شاید حمید نے یہ حدیث بعض ان صحابہ سے لی ہو جو اس موقع پر موجود رہے ہوں ۔ اس حدیث میں فائدہ کی بات یہ ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ دعوی امارت سے تنازل اختیار کر گئے ؛ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں داخل ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہوجائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق علماء کے مختلف افکار و آراء:
[ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والوں نے ان کے خلاف شورش بپا کر دی تھی۔ایک گروہ آپ کی بیعت تک سے منحرف ہوگیا، اہل شام اس وقت تک آپ کی بیعت کرنے کے لیے تیار نہ تھے، جب تک
قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص نہ لے لیا جائے]۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں لوگ گروہ بندی
[1] المسند ۱؍۱۶۴۔ تحقیق أحمد شاکر۔