کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 382
‘حضرت طلحہ ‘ حضرت زبیر ؛ حضرت سعد‘ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ [حکم دیاکہ]یہ باہمی مشورہ سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر دیں ۔ حضرت طلحہ و زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم حسب مرضی شوریٰ میں سے نکل گئے۔ حضرت عثمان ، علی، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم باقی رہے۔ان تینوں کا آپس میں اتفاق ہوا کہ: عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خلیفہ نہیں بنیں گے ‘ اور ان دو میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کریں گے۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مسلسل تین شب و روز نہ سوئے۔ انصار و مہاجرین اورصوبوں کے عمال سے مشورہ کرنے میں مصروف رہے۔ان لوگوں نے اس سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تھا ؛ اور ابھی مدینہ میں موجود تھے۔ ان سب نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا اور پھر کسی کی ترغیب و ترہیب کے بغیر عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔یہی وجہ سے کہ بہت سارے سلف جیسے : ایوب سختیانی ‘ احمد بن حنبل اور امام دار قطنی رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دی؛ اس نے مہاجرین و انصار صحابہ کرام سے بے وفائی کی ۔‘‘ یہ دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ‘اسی لیے صحابہ نے آپ کو مقدم جانا اور آپ کی بیعت کی۔ خلافت علی رضی اللہ عنہ اور شیعیت : [شبہ]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کثیر مخلوقات کی بیعت کی بنا پر خلیفہ قرار پائے۔‘‘ [جواب]: مخلوق کی بیعت کے لیے جناب ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تخصیص بلا مخصص ہے ۔ جس کا باطل ہونا ظاہر ہے۔ اس لئے جس انسان کو سیرت سے معمولی سابھی شغف ہوگا وہ جانتا ہے کہ قبل ازیں خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی بیعت بھی اسی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر اورلوگوں کے اتفاق سے ہوئی تھی۔ ہر انسان جانتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ہونے والا اتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے بہت بڑھ چڑھ کر تھا۔اور جن لوگوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی وہ ان لوگوں سے افضل تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والوں میں جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور ان کے امثال شامل ہیں ۔آپ کی بیعت انتہائی اطمینان و سکون سے تین دن کی مشاورت کے بعد عمل میں آئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد عمل میں آئی تھی جب کہ دل سکون و اطمینان سے یکسر محروم تھے۔ اکابر صحابہ متفرق تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے متعلق یہاں تک کہا جاتا ہے کہ انہیں بحالت جبر و اکراہ بیعت کے لیے لایا گیا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے : میں نے بیعت لی اور تلوار میری گردن پر تھی۔