کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 381
کہ اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴾ (الحدید25) ’’ بلا شبہ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت لڑائی( کا سامان) ہے اور لوگوں کے لیے بہت سے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ جان لے کہ کون دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے۔‘‘ پس کتاب اللہ تعالیٰ کے احکام کو واضح کرتی ہے؛ کیا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور کس چیز سے منع کیا ہے۔ اور تلوار اس کی مدد ونصرت اور تائید کرتی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کتاب و سنت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بیعت کا حکم دیا تھا۔ اور جنہوں نے آپ کی بیعت کی ؛ وہ اہل سیف و سنان لوگ تھے۔ وہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار تھے۔ تو کتاب اللہ کی روشنی میں تلواروں کی حمایت سے آپ کے حق میں بیعت خلافت منعقد ہوئی۔ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عہد لیا تھا؛ اور آپ کی موت کے بعد مسلمانوں نے آپ کی بیعت کرلی۔تو آپ بھی شوکت و غلبہ حاصل ہونے پر اوربیعت کئے جانے پر امام بن گئے۔ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ پر شیعہ اعتراض: [اشکال]: شیعہ مصنف کا یہ قول ہے کہ:’’ بعض صحابہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے خلیفہ منتخب کیا۔آپ شوری کے چھ ارکان میں سے ایک تھے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب] : ہم اس کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بعض لوگوں کی بیعت سے خلیفہ نہیں بنے تھے ؛ بلکہ آپ کی بیعت پر اجماع عام ہوا تھا، اور ایک شخص بھی بیعت سے الگ نہ رہا۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بروایت حمدان بن علی فرماتے ہیں :’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت باقی خلفاء راشدین کی نسبت زیادہ مستحکم تھی، کیونکہ آپ کی خلافت اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کی بنا پر عالم وجود میں آئی تھی۔‘‘[ امام احمد رحمہ اللہ کا بیان حق و صداقت کا آئینہ دار ہے] ۔ بالفرض اگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آپ کی بیعت کرتے اور حضرت علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم اور دیگر اصحاب اثر و رسوخ بیعت میں شریک نہ ہوتے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز نہ ہوتے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان چھ اشخاص پر مشتمل ایک مجلس شوری قائم کر دی تھی : حضرت عثمان‘ حضرت علی