کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 380
عہد کو پورا نہ کرتے؛ اور ان کی بیعت نہ کرتے تو آپ امام نہ بن سکتے تھے؛ بھلے یہ طریقہ جائز تھایا ناجائز ۔ حلال اور حرام ہونے کا تعلق افعال سے ہے۔ جب کہ نفس ولایت اور سلطان ؍حکومت اصل میں یہ اس حاصل شدہ قدرت سے عبارت ہے۔ پھر یہ قدرت کبھی ایسے طریقے سے حاصل ہوجاتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ طریقہ ہو؛ جیسا کہ خلفائے راشدین کو حکومت حاصل ہوئی تھی۔ اور کبھی یہ نافرمانی اور عصیان کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جیسے ظالم اور جابر حکمرانوں کی حکومتیں ۔ چلیں اگریہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ایک گروہ نے آپ کی بیعت کر لی تھی۔ اور باقی سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بیعت کا انکار کرتے تھے؛ تو اس طرح تو آپ امام ؍ حاکم نہیں بن سکتے تھے۔ بیشک آپ امام اس وقت بنے جب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی بیعت کرلی ۔ اور یہ جمہور صحابہ وہ اہل شان و شوکت ؛ اہل حل و عقد تھے؛ جنہیں قدرت حاصل تھی۔ اسی لیے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا بیعت نہ کرناکوئی نقصان دہ ثابت نہ ہوا۔ کیونکہ اس سے ولایت کے اصل مقصود پر کوئی قدح وارد نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ مقصود تو شوکت و سطوت اور قدرت ہوتی ہے؛ جن کی وجہ سے امت کی مصلحتیں پوری ہوسکتی ہوں ۔ اور یہ مقصد حضرات جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیعت کرلینے سے حاصل ہوگیا تھا۔ اب جو کوئی یہ کہتا ہو کہ کسی ایک یا دو یا چار افراد کی موافقت سے کوئی امام بن جاتا ہے؛ اور یہ لوگ اہل شوکت و سطوت اور اہل قدرت نہ ہوں ؛ تویقیناً اس نے غلط بیانی کی ۔ جیسا کہ اس آدمی کا حال ہے جو گمان کرتا ہے کہ کسی ایک ؛ دو چار یا دس کا بیعت سے پیچھے رہ جانا نقصان دہ ہے؛ یہ بھی یقیناً غلط ہے۔ حضرات مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے ہم راز اوردوست و انصار تھے۔ جن کی وجہ سے اسلام کو عزت او رقوت نصیب ہوئی۔ اور ان کے ساتھ مل کر مشرکین پر غلبہ پایا۔ اور جزیرہ عرب فتح ہوا۔ تو وہ جمہور جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ؛ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی بیعت کی ۔رہ گئی یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرا بیعت کرنے میں سبقت لے گیا؛ تو ایسا بھی ضروری ہے کہ ان بیعت کرنے والوں میں سے کوئی ایک سبقت بھی لے جائے۔ اگر یہ با ت مان لی جائے کہ کچھ لوگ اس بیعت کو نا پسند کرتے تھے؛ تو پھر بھی اس سے بیعت سے مقصود پر قدح وارد نہیں ہوتی۔ کیونکہ آپ کے لیے نفس استحقاق تو ان شرعی دلائل کی روشنی میں ثابت ہے جو ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی اس منصب کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اب شرعی دلائل کی موجودگی میں کسی کی مخالفت کچھ بھی نقصان دہ ثابت نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ نفس امامت کا حصول؛ اور اس کا وجود اہل شان و شوکت اور عمائدین اورقائدین کی بیعت اور اطاعت سے حاصل ہوگئی تھی۔ دین حق کے لیے راہ ہدایت دکھانے والی کتاب اور اس کی نصرت کرنے والی تلوار کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا