کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 38
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے جہاد سے متعلق جو خواب دیکھا تھا[1] وہ بھی اس حقیقت کا آئینہ دار ہے آپ کا دوسرا خواب یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے سے متعلق تھا[2] صحیحین کی حضرت جابرہ بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں قریش کے جن عظیم اشخاص کا ذکر پایا جاتا ہے، وہ وہی لوگ تھے جنھوں نے جہاد میں شرکت کی اور اسلامی دعوت کو براعظم ایشیا وافریقہ اور یورپ کے دور افتادہ گوشوں تک پہنچا دیا، ہمارے قلوب ان کی سپاس گزاری میں کتنے ہی مشغول رہیں ہماری زبانیں ان کی مجاہدانہ مساعی کی مدح و ثنا میں کتنی ہی رطب اللسان ہوں ، یہ حقیقت ہے کہ ہم ان کے واجب شکر کا عشر عشیر بھی ادا نہیں کرسکتے۔
اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت وبزرگی اور ان کی جرأت و بسالت کے اثبات میں ہم نے صحیح معلومات پر مبنی جو علمی مقالات لکھے ہیں ان سے صحابہ کی مدح و ثنا کا حق کیوں کر ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح دور حاضر کی تصنیفات سے صحابہ کی مدح گوئی کیوں کر ممکن ہے اگرچہ یہ تصانیف صحابہ کے مناقب و فضائل سے پر ہیں اور ان کتب کا اقصائے ارضی کے نوجوانوں تک پہنچنا ناگزیر ہے۔ان کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے، کہ قاری ان غزوات میں بذات خود شریک ہے، وہ اسلامی فوج کا ایک فرد ہے اور اسلامی جھنڈے تلے کفار کے خلاف نبرد آزما ہے، قاری اس تصور میں کھو جاتا ہے کہ صحابہ و تابعین کے ہاتھوں جو فتوحات حاصل ہوئیں اور اہل اسلام نے ان دنوں جو معرکے سر کئے وہ اپنے جذبات و احساسات اور دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ان میں شامل ہے اور جہاد میں بھرپور حصہ لے رہا ہے۔
منہاج الکرامہ کی علمی حیثیت :
یہی وہ صحابہ و تابعین رحمہم اللہ تھے جن کے بارے میں ’’ ابن المطہر ‘‘ [الحلی] نامی[شیعہ مصنف ]....نے ’’منہاج الکرامۃ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب گالیوں کا پلندہ ہے، جس میں صحابہ کی مجاہدانہ مساعی کی مذمت کر کے ان کے محاسن کو عیوب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہجو و قدح کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا گیا، اس کی حدیہ ہے کہ اگر اعداء دین مثلاً مجوس، رومی، ترک اور دیالمہ میدان حرب و قتال میں جب وہ صحابہ کے خلاف برسر پیکار تھے اگر ان کے اخلاق و اعمال کی تصویر کشی کرنا چاہتے تو اس شرمناک طریق کار سے اجتناب کرتے۔
کلینی کی کتاب’’الکافی‘‘ کی موضوع روایات:
غالباً پادری کافی کلینی سے بیان کردہ جھوٹی روایات سے احتجاج کیا کرتے تھے، مثلاً ’’الکافی ‘‘کی مذکورہ
[1] صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب ما قیل فی قتال روم (حدیث: ۲۹۲۴۔ ۲۷۸۹، ۶۲۸۳)
[2] صحیح بخاری، حدیث:۲۹۲۴، ۲۷۸۹، ۶۲۸۳۔