کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 379
یعنی جن امور کی بنیاد اختیار اور سلطان [قوت ]پر ہو؛ تو جب بھی قدرت وشوکت حاصل ہو جائے ؛ تو امامت منعقد ہوجائے گی ؛ ورنہ نہیں ۔ اس لیے کہ امامت سے مقصود ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے جن کو نبھانا قوت و سلطنت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایک چرواہے کی ہے ؛ جب بھی اس کے انتظام و لوازمات پورے ہوجائیں گے ؛تو اسے چرواہا تسلیم کیا جائے گا؛ ورنہ نہیں ۔ ایسے ہی کسی عامل کو عامل اسی وقت کہا جاسکتا ہے جب وہ اس کام کو نبھانے کی قدرت رکھتا ہو‘ ورنہ نہیں ۔ لوگوں کی سیاست پر قدرت ان کے اس امام کی اطاعت کرنے سے حاصل ہوتی ہے ؛ یا اس امام کے ان لوگوں پر غالب آجانے سے ۔ جب بھی انسان لوگوں کے سیاسی امور نبھانے پر قادر ہوجائے ؛ بھلے وہ لوگوں کے اس کی اطاعت کرلینے کی وجہ سے ہو ‘ یا پھر اس انسان کے غالب آجانے کی وجہ سے ؛ تو اب یہ انسان صاحب ِ اطاعت و شوکت حکمران ہوگا۔ پس جب یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالانے کا حکم دے تو اس کی بات ماننا پڑے گی۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے عبدوس بن مالک العطار کے نام ایک خط میں تحریر کیا تھا: ’’ اہل سنت و الجماعت کے ہاں عقیدہ کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس چیز پر صحابہ کرام تھے ‘ اسے مضبوطی سے قائم رہیں ۔....یہاں تک کہ آپ نے فرمایا....: جو شخص مسند خلافت پر قابض ہو اور لوگ اس کی خلافت پر اجماع کر لیں ؛ اور اس کے خلیفہ ہونے پر راضی ہوجائیں ۔اور اسی طرح جو شخص بزور شمشیر خلیفہ بن بیٹھے؛ اور لوگ اسے مسلمانوں کا حکمران تسلیم کرلیں تو اس کو صدقات دینا جائز ہے، خواہ وہ نیک ہویا بد۔‘‘ فرماتے ہیں : اسحاق بن منصور کی روایت میں ہے؛ بیشک آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا: ’’جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ اس کا کیا معنی ہے؟تو آپ نے پوچھا: تم جانتے ہو امام کیا ہے؟ امام وہ ہوتا ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہو؛ اور وہ سبھی کہتے ہوں : یہ امام ہے۔ اس کا معنی یہ ہے۔‘‘[1] اوریہاں پر گفتگو دو چیزوں کے بارے میں ہے: اول : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا امامت کا مستحق ہونا؛ اور یہ کہ آپ کی بیعت ان امور میں سے تھی جن کو اللہ تعالیٰ اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے۔ یہ بات نصوص اور اجماع کی روشنی میں ثابت ہے۔ دوم: جب آپ امام بن گئے ؛ یہ اس وقت ہوا جب اعیان حکومت اور اہل سطوت نے آپ کی بیعت کرلی؛ اور ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں عہد لیا تو آپ بھی امام بن گئے کیونکہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور اطاعت قبول کرلی۔ تصور کرلیجیے کہ اگروہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کئے گئے
[1] فِی المسند ط. الحلبِیِ 4؍96 ولفظہ: ’’ من مات بِغیرِ إِمام مات مِیتۃ جاہِلِیۃ۔‘‘