کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 378
’’ جو شخص قوت و شوکت حاصل کر لے جس کی بنا پر وہ مقاصد خلافت کی تکمیل کر سکتا ہو، تو وہ ان اولی الامرحکام میں شمار ہوگا جو واجب الاطاعت ہیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ کی معصیت کا حکم صادر نہ کرے۔ نظر بریں خلافت ملوکیت و سلطنت کا نام ہے نیک ہو یا بد کوئی شخص صرف تین یا چار آدمیوں کی موافقت کے بل بوتے پر بادشاہ نہیں بن سکتا۔سوائے اس صورت کے کہ ان چار پانچ افراد کی بیعت اور موافقت کا تقاضا یہ ہو کہ باقی لوگ بھی اس بیعت پر راضی ہوں ‘ تو امامت منعقد ہو جائے گی۔ ایسے ہی ہر وہ معاملہ جس میں کسی کی مدد کی ضرورت ہو‘ وہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک وہ لوگ تعاون نہ کرلیں جن کے ذریعہ سے اس کام کا سر انجام دیا جانا ممکن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی گئی اور قوت و اقتدار سے بہرہ ور ہوگئے تو امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔‘‘
اگر لوگوں کی ایک جماعت سفر میں ہو‘ تو سنت کے مطابق انہیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے ایک آدمی کو امیر بنالیں ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’تین لوگوں کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ سفر میں ہوں ‘ مگر اپنے میں سے ایک آدمی کو اپنا امیر بنالیں ۔‘‘[1]
پس جب ارباب اختیار اسے منتخب کرلیں تو وہ امام؍ امیر بن جائے گا۔ کسی انسان کا امیر و قاضی و والی ہونا ؛
[1] رواہ أبو داؤد۳؍۵۰؛و أحمد ۱۰؍۱۷۴۔ان دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ چونکہ خلافت صدیقی پر سب مسلمانوں کا اجماع منعقد ہوا تھا اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر اظہار خوشنودی فرمایا تھا اس لئے آپ امامت کے مستحق تھے۔ پھر اہل قوت و اقتدار کے بیعت کرنے کی بنا پر آپ خلیفہ منتخب ہوگئے۔ اسی طرح بیعت عامہ اور مسلمانوں کے اطاعت اختیار کرنے کی بنا پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے۔ اگر اس مفروضہ کو تسلیم کر لیا جائے کہ صحابہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد نامہ کو درست تسلیم نہیں کیا تھا، تو آپ امامت کے منصب پر فائز نہ ہوتے۔ قطع نظر اس سے کہ آپ کی خلافت جائز تھی، یا ناجائز؟ حلت و حرمت کا تعلق افعال سے ہے۔ جہاں تک خلافت و امارت کا تعلق ہے، وہ صرف حاصل شدہ اقتدار کا نام ہے۔ بعض اوقات یہ اقتدار جائز طریقہ سے حاصل ہوتا ہے، جیسے خلفائے راشدین کی خلافت اور بعض اوقات ناروا طریق سے بھی قوت و شوکت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً کسی ظالم کی سلطنت و حکومت۔ اگر اس مفروضہ کو صحیح تصور کیا جائے کہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور چند صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی، اور باقی صحابہ اس کے لیے تیار نہ تھے تو آپ کی امامت و خلافت کا انعقاد نہیں ہوتا۔ بخلاف ازیں آپ جمہور مسلمانوں کی بیعت کی بنا پر خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بیعت نہ کرنے سے آپ کی خلافت میں قدح وارد نہ ہوئی، کیونکہ خلافت کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت کرنے میں جو سبقت فرمائی تھی، تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ بیعت کرتے وقت کوئی شخص تو ایسا ہوگا جو باقی لوگوں سے سبقت کرے گا۔ اگر چند افراد آپ کی بیعت پر خوش نہ بھی ہوتے تو اس سے بھی آپ کی خلافت میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی ، کیونکہ شرعی دلائل سے آپ کی بیعت کا استحقاق ثابت ہو چکا تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں جو وصیت کی تھی، اس کی تکمیل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی بیعت عام سے ہوئی اور آپ بالاتفاق خلیفہ قرار پائے۔