کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 376
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحیح اور صریح نصوص دلالت کرتی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آپ کے لیے اس امر پر راضی تھے۔مسلمانوں کی بیعت و اختیار سے آپ کی خلافت منعقد ہوئی۔اس اختیار میں لوگوں کے پاس اللہ اور اس کے رسول کے ہاں آپ کی فضیلت کے دلائل موجود تھے۔ اور یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ ہی خلافت کے حقدار تھے۔ پس آپ کی خلافت نص اوراجماع سے ثابت ہوتی ہے۔ نصوص میں دلیل موجود ہے کہ اللہ اور اس کا رسول آپ پر راضی تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ آپ کے لیے مقدر کردیا تھاکہ مؤمنین آپ کو خلیفہ منتخب کریں گے۔ یہ بات تحریر نویسی سے زیادہ مضبوط و بلیغ تھی۔اس لیے کہ اگر عہد نامہ لکھا جاتا تو آپ کی خلافت کا ثبوت صرف عہد نامہ ہوتا ۔
جب مسلمانوں نے بغیر کسی عہد نامہ کے آپ کو چن لیا ؛نصوص ان کے اختیار و چناؤ کے درست و حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔اوریہ کہ اللہ اور اس کا رسول آپ سے راضی ہیں ۔یہ اس بات کی بھی دلیل ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں وہ فضائل و مناقب موجود تھے جن کی وجہ سے آپ دوسرے عام مسلمانوں سے ممتاز اور جداگانہ حیثیت رکھتے تھے ؛ اور آپ خلافت کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ پس اس بنا پر آپ کے لیے کسی عہد کے لکھے جانے کی ہر گزکوئی ضرورت نہیں تھی۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے وثیقہ لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’میرے پاس اپنے والد اور بھائی کو بلا کرلاؤ تاکہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے ایک عہد نامہ لکھ دوں ۔مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا کوئی کہنے والا یہ کہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حقدار ہوں یا کوئی آرزو کرنے والا(خلافت کی) تمنا کرے۔ مگر اﷲ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو( خلیفہ) تسلیم نہیں کر سکتے۔‘‘[1]
صحیح بخاری کی روایت میں ہے :
’’میں نے ارادہ کیا تھا کہ تمہارے والد اور بھائی کو بلا کر ایک عہد نامہ لکھ دوں مبادا کوئی کہنے والا یہ کہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حقدار ہوں یا کوئی آرزو کرنے والا(خلافت کی) تمنا کرے۔اﷲ تعالیٰ اور مومنین ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو( خلیفہ) تسلیم نہیں کر سکتے۔‘‘ [2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا تھا کہ آپ اس اندیشہ کے تحت عہد نامہ لکھنا چاہتے تھے ؛ پھر آپ کو اندازہ ہوا کہ معاملہ صاف ظاہر اور واضح ہے ؛ اس میں کسی قسم کا کوئی نزاع نہیں ہوسکتا ۔ اور امت میں ابھی تک خود نبی موجود ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ نے اس امت کو لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا ہے ؛ اور یہ زمانہ بھی بہترین لوگوں کا زمانہ ہے ۔ پس ایسے واضح اور کھلے ہوئے معاملہ میں ان کے مابین کو ئی اختلاف نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ نزاع
[1] اس کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔
[2] اس کی تخریج گزر چکی ہے۔