کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 375
چند امور سے ہوا جو انہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن اور دیکھ رکھے تھے۔ ان سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علم ہوگیا تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلافت نبوت کے اس امت میں سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی آپ باقی تمام لوگوں سے افضل و محبوب تھے۔ اور اس امت میں کوئی آپ کا ہم پلہ یا مشابہ نہیں تھا کہ اس کے متعلق کسی سے کوئی مناظرہ کیا جائے ۔ یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے یہ نہیں کہا کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن خطاب یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہم یا پھر کوئی دوسرا صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ؛ یا پھر خلافت کا زیادہ حق دار ہے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ دیکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دوسرے صحابہ پر تقدیم اور افضلیت دیتے ؛ اور بطور خاص آپ کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ بات ہر خاص و عام پر ظاہر ہے۔ حتی کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنان اہل کتاب ؛مشرکین اور منافقین بھی یہ بات جانتے تھے۔ اور سبھی کو پتہ تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خاص الخواص میں سے ہیں کہ ان جیسا مقام کسی دوسرے کو حاصل نہیں ۔ بلکہ حدیث کی تمام کتب ؛صحاح ؛ مسانید؛ اور مغازی میں ثابت ہے ؛ اور لوگوں کااس پر اتفاق ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمان منہ پھیر کر بھاگ گئے تو اس وقت ؛ توابوسفیان نے ایک بلند جگہ پر چڑھ کر پکارا: ’’ اے مسلمانو!کیا محمد زندہ ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاموش رہو؛ جواب نہ دو۔ پھر کہنے لگا :اچھا ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر زندہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا: چپ رہو جواب مت دو۔ پھر کہا :اچھا خطاب کے بیٹے عمر زندہ ہیں ؟پھر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب مارے گئے؛ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا؛ اور کہنے لگے: او دشمن خدا!تو جھوٹا ہے اللہ نے تجھے ذلیل کرنے کے لئے ان کو قائم رکھا ہے۔ ابوسفیان نے نعرہ لگایا: اے ہبل! تو بلند اور اونچا ہے؛ ہماری مدد کر۔‘‘[فِی البخاری 4؍65 : کتاب الجہاد والسِیرِ، باب ما یکرہ مِن ....] یہ حدیث صحیحین میں روایت کی گئی ہے۔ اور اس کا مکمل تذکرہ آگے آئے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔ حتی کہ میں منافقین کے ایک ایسے گروہ کوجانتا ہوں جو کہتے ہیں کہ : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک انتہائی عاقل انسان تھے۔ آپ نے اپنے عقل اور ذہانت اور تجربہ سے ریاست تشکیل دی۔ اور وہ کہتے ہیں : اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوبکر خفیہ طور پر اس معاملہ میں آپ کے ساتھ تھے؛ اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر احوال کا علم تھا؛ بخلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے۔ یہ بات عمومی طور پر تمام خلائق پر عیاں ہوگئی تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخواص میں سے تھے۔ پس یہ اللہ کے نبی ہیں اور یہ آپ صدیق ہیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صدیقین سے افضل ہیں ۔